مودی حکومت کی اقتصادی غلطیاں عوام سے معذرت خواہی کا وقت

   

پی چدمبرم (سابق مرکزی وزیر داخلہ )
بالآخر، نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی عقل ٹھکانہ آہی گئی ، تین ستمبر 2025 ء کو حکومت نے کئی ایک اشیاء اور خدمات پر عائد جی ایس ٹی ( گڈس اینڈ سرویس ٹیکس ) شرح کو نہ صرف معقول بنایا بلکہ اس میں تخفیف بھی کی یعنی حکومت نے مختلف اشیاء پر عائد جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کردی جس کے نتیجہ میں اب محاصل کی ساخت … اور سادہ ٹیکس ’’گڈ اینڈ سمپل ٹیکس ‘‘ کے بالکل قریب ہوگیا ۔ آپ کو بتادیں کہ بے شمار سیاسی جماعتوں ، کاروباری شخصیتوں ، تاجرین و صنعتکاروں ، اداروں اور شخصیتوں (بشمول راقم الحروف ) نے گزشتہ 8 برسوں سے حکومت پر زور دیا اور دے رہے ہیں، ساتھ ہی اس سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ جی ایس ٹی شرح کو معقول اور بہتر بنائیں۔ جب دستوری ( 122 ویں ترمیم ) بل اگسٹ 2016 ء میں بحث کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا میں نے اس پر راجیہ سبھا میں کھل کر اظہار کیا تھا جس کے اقتباسات ذیل میں پیش کررہا ہوں :
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وزیر فینانس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ یو پی اے حکومت ہی تھی جس نے پہلی مرتبہ سرکاری طورپر جی ایس ٹی متعارف کروانے سے متعلق اپنے ارادہ کا اعلان کیا ، 28 فبروری 2005 ء کو لوک سبھا میں بجٹ تقریر کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا ۔
جناب ! یہاں چار بڑے مسائل ہیں …
اب میں بل کے اہم ترین حصہ کی طرف آتا ہوں … یہ ٹیکس کی شرح سے متعلق ہے میں آپ کو فی الوقت چیف اکنامک اڈوائزر کی رپورٹ کے چند حصہ پڑھ کر سناتا ہوں ، برائے مہربانی یہ یاد رکھیں کہ ہم ایک بالواسطہ ٹیکس اور ایک راست ٹیکس سے نمٹ رہے ہیں ۔ اگر تعریف کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک رجعت پسند ٹیکس ہے ۔ ویسے بھی کوئی بھی بالواسطہ ٹیکس امیروں اور غریبوں پر یکساں طورپر نافذ کیا جاتا ہے … چیف اکنامک اڈوائزر نے حالیہ رپورٹس میں کچھ یوں کہا ’’زیادہ آمدنی کے حامل ملکوں میں جی ایس ٹی کی اوسط شرح 16.8 فیصد ہے اور ہندوستان جیسی اُبھرتی معیشتوں میں جی ایس ٹی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور یہ 14.1 فیصد اور 16.8 فیصد کے درمیان ہے ۔ ‘‘۔
’’ہمیں محاصل یا ٹیکس کم رکھنے کی ضرورت ہے اور اُسی وقت ہمیں مرکزی حکومت ا ور ریاستی حکومتوں کے موجودہ آمدنیوں کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے اور ہم یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ اسے ریونیو نیوٹرل ریٹ RNR کہا جاتا ہے ۔ ان حالات میں چیف اکنامک اڈوائزر نے ماہرین کے ساتھ بشمول ریاستی حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے 15% تا 15.5 فیصد RNR تک پہنچنے اور پھر مشورہ دیا کہ Standard Rate 18 فیصد ہونا چاہئے ۔ کانگریس نے 18 فیصد سے متعلق صرف ہوا میں بات نہیں کی بلکہ یہ 18 فیصد خود آپ کی رپورٹ سے آئی ۔ ‘‘
’’کسی نہ کسی کو عوام کے حق میں بولنا چاہئے ۔ عوام کے نام پر اور عوام کی خاطر آپ سے کہتا ہوں کہ اس شرح کو آپ کے چیف اکنامک اڈوائزر کی سفارشات کے مطابق رکھیں جسے اسٹانڈرڈ ریٹ کہا جاتا ہے اور Standard Rate ، 18% سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے‘‘ ۔ رپورٹ کے صرف پیراگراف 29,30,52,53 پڑھ لیں جو واضح طورپر بتاتے ہیں کہ 18 فیصد جی ایس ٹی کے Standard Rate سے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی آمدنی کا تحفظ ہوگا ۔ موثر ہوگا اور اس سے مہنگائی میں اضافہ بھی نہیں ہوگا ۔ اس کے علاوہ ٹیکس کی چوری پر بھی قابو پایا جائے گا اور ہندوستانی عوام کیلئے قابل قبل ہوگا ۔ اگر آپ اشیاء اور خدمات پر 24 فیصد یا 26 فیصد ٹیکس عائد کرنے جا رہے ہیں تو پھر ایک جی ایس ٹی بل کیوں لایا ۔ عملاً آپ کو ٹیکس بل میں ایک شرح رکھنی ہوگی ۔ میں اپنی پارٹی کی جانب سے پرزور اور واضح مطالبہ کرتا ہوں کہ جی ایس ٹی کا اسٹانڈرڈ ریٹ جس کا اکثر اشیاء اور خدمات پر اطلاق ہوتا ہے ۔ 70 فیصد سے زیادہ اشیاء اور خدمات پر 18 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے اور اسی 18 فیصد جی ایس ٹی پر کم ترین شرح اور Demerit Rate کام کرسکتا ہے ۔
پچھلے 8 برسوں میں مرکزی حکومت صارفین کے جیبوں سے بچا ہوا آخری پیسہ بھی نکالنے اور اُن کے استحصال کیلئے ہمہ قسم کے جی ایس ٹی شرح کو استعمال کیا ۔ پہلے حصہ کے سال ( جولائی 2017 ء تا مارچ 2018 ء ) حکومت نے جی ایس ٹی کی شکل میں 11 لاکھ کروڑ روپئے جمع کئے ۔ پھر سال 2024-25 ء میں حکومت نے اس مد میں 22 لاکھ کروڑ روپئے جمع کیا ۔ اس طرح صارفین کی جانب سے خون پسینہ ایک کرکے کمایا گیا ہر پیسہ حکومت نے جی ایس ٹی کے ذریعہ حاصل کرلیا ۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ان حرکات کو طنز و طعنوں کا نشانہ بناتے ہوئے انھوں نے GST کو گبر سنگھ ٹیکس قرار دیا ۔ لوگوں کی قوت خرید میں کمی یا کاروبار میں گروٹ اور گھروں کے قرضوں کے بڑھنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ جی ایس ٹی کی اعلیٰ شرح رہی ۔ یہ اقتصادیات کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ محاصل میں تخفیف اشیاء کی فروخت میں نہ صرف اضافہ کرتی ہے بلکہ اشیاء کے استعمال کے رجحان کو بھی بڑھاتا ہے ۔ اگر ٹوتھ پیسٹ ، ہیرآئیل ، دودھ ، بچوں کے نیپکنس ، پینسل ، نوٹ بکس ، ٹریکٹر اور اسپرنکلرس وغیرہ پر 5 فیصد جی ایس ٹی ہو تو یہ آج اچھا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے 8 برسوں میں یہ خراب کب تھا ؟ عوام کو آخر کیوں 8 برسوں تک حد سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑا ۔ شرحوں میں تخفیف صرف شروعات ہے اب بھی کئی چیزیں کرنی ہیں مثال کے طورپر حکومت کو چاہئے کہ
< ریاستوں ، پیداوار کنندگان اور صارفین کیلئے سنگل جی ایس ٹی کی ایک شرح تیار کرے ( اگر ضروری ہو تو ) ۔
< غیردانشمندانہ کام کو ختم کرے جس کے ذریعہ قانون و قواعد کی مختلف دفعات بنائی گئیں اب اُنھیں سادہ سی زبان میں ازسرنو رقم کریں ۔
< فارمس اور ریٹرنس کو سادہ بنائیں اور غیرمعمولی انداز میں ریٹرن داخل کرنے کی باریوں میں تخفیف کریں۔
< قانون کے تابع ہونے کے عمل کو سادہ بنائیں تاکہ ایک چھوٹے دکاندار یا تاجر کو کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔
< جی ایس ٹی قوانین کو غیرفوجداری بنائیں کیونکہ کامرس سے متعلق کئی دیوانی قوانین ہیں ، خلاف ورزی کی صورت میں مناسب مالیاتی جرمانوں کے ذریعہ سزاء دی جائے اور
< ٹیکس جمع کرنے والوں میں اس بات کا احساس پیدا کریں کہ پیداوارکنندگان اور تاجرین معیشت کا مرکز ہے اور یہ ایسے دشمن نہیں ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے اُن کا خاتمہ کریں۔
جی ایس ٹی کی شرح میں کمی پر بی جے پی کے پاس جشن منانے کیلئے کچھ نہیں ہے بلکہ حکومت کو عوام سے معذرت خواہی کرنی چاہئے اور مجھے اُمید ہیکہ مابقی اصلاحات پر عمل آوری کیلئے یہ عمل 8سال کا طویل عرصہ نہیں لے گا ۔