پی چدمبرم
میں شاید ہی یقین کرسکتا ہوں کہ 31 سال گذر چکے ہیں جب پہلی مرتبہ ملک کی معاشی پالیسی میں تبدیلی کا بگل بجایا گیا تھا۔ یکم جولائی 1991ء کی بات ہے جب روپیہ کی قدر میں کمی کی گئی حالانکہ اپوزیشن اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کررہی تھی۔ اپوزیشن کا موقف اس قدر سخت تھا کہ اُس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ معاشی اصلاحات سے متعلق اگلا قدم روکنا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی معاشی اصلاحات کو روکنے کی خواہش پوری کرنے کا ڈرامہ کیا۔ آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر سی رنگاراجن، دستیاب نہیں تھے اور پھر 48 گھنٹوں میں روپئے کی قدر میں مزید کمی کا اعلان کرکے نہ صرف اپوزیشن کو حیران و پریشان کردیا بلکہ معاشی اصلاحات کا بجل بجا دیا۔ دراصل وہ دو قدمی رقص تھا جس کی پہلے ہی تیاری کرلی گئی تھی اور بڑی مہارت سے اس کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس وقت جو بھی کیا گیا، اسے صرف دو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو جو کچھ بھی کیا گیا پورے عزم و حوصلے کے ساتھ کیا گیا اور فوری طور پر کیا گیا۔ حکومت نے اس کے ساتھ تجارتی پالیسی سے متعلق اصلاحات نئی صنعتی پالیسی اور روایتوں سے ہٹ کر بجٹ پیش کیا، ایسا بجٹ جس نے معیشت کی نئی راہیں ہموار کی ۔ آپ کو بتادوں کہ دنیا ہندوستان میں متعارف کروائی گئیں، معاشی اصلاحات کے نفاذ میں حکومت ہند کی ہمت پر حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کی واضح پالیسی اور پالیسی پر تیزی سے عمل آوری کا مشاہدہ کرتے ہوئے عالمی برادری نے ہندوستانی حکومت کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور جب معاشی اصلاحات نے کام کرنا شروع کیا، اس کی حیرانی میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ دنیا حکومت ہند کی معاشی پالیسیوں کے ثمرات دیکھ رہی تھی۔
پچھلے 30 برسوں میں جب سے کانگریس کی زیرقیادت حکومت نے فراخدلانہ معیشت کے دور میں جو کچھ اقدامات کئے تھے، ملک ہنوز اس کے متعدد ثمرات اور فوائد حاصل کررہا ہے، خاص طور پر حصول دولت کے ذرائع پیدا کرنے، نئے کاروبار شروع کرنے، تجارت کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے، نئے تجارتی ادارے قائم کرنے، نئے صنعت کار پیدا کرنے اور متوسط طبقہ کو خوشحال بنانے ، روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرنے، برآمدات میں اضافہ اور 270 ملین افراد کو غربت سے نکالنے جیسے فوائد ملک نے حاصل کئے اور کانگریس کی زیرقیادت حکومت کے معاشی اصلاحات کے ثمرات سے استفادہ کیا۔ اب بھی بناء کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک قابل لحاظ تعداد انتہائی غربت کی حالت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں شدید غربت ہے، وہیں بھوک و افلاس کا دور دورہ ہے جیسا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس 2021ء میں ہم نے دیکھا کہ ہندوستان کا مقام 116 ممالک میں 111 ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں خواتین اور بچے کثیر تعداد میں ناقص غذا کا شکار ہیں۔ یہ راقم الحروف نہیں کہہ رہا ہے بلکہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے V میں اس کا انکشاف ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم کے موقف سے متعلق سالانہ رپورٹس (Annual status education reports) میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں سیکھنے سکھانے کے نتائج انتہائی ابتر ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بڑے پیمانے پر بیروزگاری پائی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وقفے وقفے سے افراطِ زر میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوام میں معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ آمدنی کے معاملے میں عدم مساوات بڑھتی جارہی ہے۔ دولت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو عدم مساوات پائی جاتی ہے۔
عالمی سطح پر ہونے والی ترقی پر غور کریں۔ امیر اقوام ، امیر ترین ہوگئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہاں ہندوستان اور چین کے درمیان پائے جانے والی خلیج کو پیش کرسکتے ہیں جو کافی بڑھ چکی ہے۔ اس ضمن میں آپ کو بتا دیں کہ سال 2022ء میں چین قومی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی 16.7 کھرب ڈالر ہوگی اور ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار 3 کھرب ڈالر ہوگی۔ آپ دیکھیں گے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے ہر پہلو پر قبضہ کرلے گی اور ڈیٹا دنیا کی نئی دولت ہے۔ اسی طرح آٹومیشن ،روبیٹکس ، مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت (Artificial Inteligence) دنیا پر حکمرانی کریں گے اور انسانوں کا کردار کیا ہوگا ، اس کا ازسرنو تعین کریں گے۔ حد تو یہ ہے کہ 5G ، انٹرنیٹ 3.0 ، بلاگ چین، میٹاورس اور کئی نامعلوم چیزیں نئی دنیا میں جگہوں اور مقامات کا نہ صرف تعین کریں گے بلکہ اس کی تعریف و توضیح بھی کریں گی۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی ، دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرے گی اور انسانی نسل کو ان اثرات سے نمٹنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ہمیں ان حالات میں فاصل فیولس کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہFossil Fuels ختم ہوجائے گا اور ہمیں اس سیارہ پر زندگی کو برقرار رکھنے اس کی بقاء کو یقینی بنانے سخت جدوجہد کرنی پڑے گی، ساتھ ہی صاف توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو بڑھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہر شعبہ میں ڈیجیٹائزیشن کے عمل کو وسعت دی جارہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ غریب اور متوسط طبقہ ؍ امیر طبقہ کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم بھی بڑھ رہی ہے۔ اکثریت پسندی یعنی غلبہ و اجارہ داری حاصل کرنے اکثریت کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ازسرنو ترتیب دینے کا معاملہ ایک مجبوری ہے، ملک بڑھتی بیروزگاری کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ مودی حکومت اس معاملے میں ہندوتوا کا نام لے کر یا لوگوں کو مذہب کی افیون دے کر عارضی طور پر بچ جائے گی، لیکن جلد ہی ہمارے نوجوانوں کو یہ احساس ہوجائے گا کہ ہندوتوا یا مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے سے روزگار نہیں ملتے۔ اب تو ملک میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان بھی تعلقات ابتر ہوچکے ہیں۔ ریاستوں کی مالی حالت مجہول ہوچکی ہے۔ ریاستوں کے اپنے وسائل گھٹ کر رہ گئے ہیں۔ GST سے متعلق مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور اس کیلئے جی ایس ٹی کا طریقہ نفاذ ذمہ دار ہے جو مودی حکومت نے عمل میں لایا۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان باہمی اعتماد بالکل ختم ہوچکا ہے اور بریکسٹ کی طرح GST سے بھی نکلنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ مودی حکومت کی نہ صرف پالیسیاں بلکہ اس نے جو راہ اپنائی ہے، وہ وفاقیت کی تباہی کا باعث بنے گی۔