مودی حکومت کی ہر ناکامی کا علاج ’’ہندوتوا کی گولی‘‘

   

روحی تیواری
ملک میں جیسے ہی کوروناوائرس کی شدت میں کمی آئے گی اور حالات معمول پر واپس آنے لگیں گے یا اس کے آثار دکھائی دیں گے تو پھر حسب توقع نریندر مودی۔ امیت شاہ کی زیر قیادت بی جے پی ایک نئے سیاسی لاک ڈاون کے ساتھ منظر عام پر آئے گی اور ان کی بندوقوں سے جاری ہندوتوا ایجنڈہ کا لاوا ابلے گا۔ عوامی مقبولیت حاصل کرنے اور اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا یہ سب سے سستا اور آسان طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ طریقہ آزمایا ہوا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ پبلسٹی کو بآسانی یرغمال بنایا جاسکتا ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ فی الوقت ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد میں بہت ہی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے)

اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات مودی۔ امیت شاہ کے لئے ہنگامہ خیز مرحلہ ہے کیونکہ ملک کے عوام کورونا وائرس کی عالمی وباء اور پھر اس کے بعد بنا کسی منصوبہ و حکمت عملی کے نافذ کردہ لاک ڈاون سے کافی پریشان ہوئے اور ان کی پریشانیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ خاص طور پر ملک کے حالات پر طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ معیشت شدید متاثر ہوئی۔ چلچلاتی دھوپ میں لاکھوں ورکروں کو پیدل جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ ورکروں کی روانگی کے یہ مناظر بڑے دردناک تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری نظروں سے ایسے واقعات بھی گذرے جن میں اپنے گاووں، دیہاتوں کو پیدل جانے والے کئی مزدور اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ کچھ سڑک حادثات کا شکار ہوئے تھے تو بے شمار مزدور دوران سفر ٹرینوں میں اور ریلوے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارمس پر ہی انتقال کر گئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مستقبل قریب میں لاک ڈاون کے دوران مزدوروں اور عوام نے جن مصائب و مشکلات کا سامنا کیا۔ انہیں جس کرب سے گذرنا پڑا وہ تمام کے تمام ان کا تعاقب کریں گے اور ان حالات میں انہیں بڑی تیزی کے ساتھ انہیں پیچھے ہٹنے اور اپنے مرضی کے مطابق Comfort zone میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی اور بی جے پی کے لئے تو اس کا ہندوتوا کا جو عجیب و غریب چہرہ ہے وہ اس کے تکیہ سے بڑا ہے۔ ہندوتوا ہی ایک ایسا عنصر ہے جو 1990 کے اوائل سے قومی سیاست میں اس کے تیزی سے پروان چڑھنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ ایسے میں یہ امکان پایا جاتا ہے کہ بی جے پی اب پورے زور و شور سے یہ ضرور کہے گی کہ ہم ہندو ملک ہیں اور یہ ملک ہندووں کے لئے ہے۔ وہ پرزور انداز میں ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر کریں گے کا نعرہ بھی لگائے گی۔ ان سے کہیں زیادہ سی اے اے، قومی سطح پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (NRC) یونیفارم سول کوڈ (یکساں سیول کوڈ) اور دوسرے متنازعہ موضوعات کا استعمال کرے گی کیونکہ اب اس کے لئے کرو یا مرو جیسی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ اس کے لئے تو ابھی نہیں تو کبھی نہیں جیسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہم سب نے دیکھا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے قائدین نے ’دراندازوں‘‘ جیسی اصطلاحات بہت زیادہ استعمال کی حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نے تو سی اے اے و مخالف این آر سی احتجاج کے دوران یہ بھی کہا تھا ’’کپڑوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں‘‘

نریندر مودی اور امیت شاہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں موجودہ پریشانی سے فوری طور پر لیکن بڑی ہشیاری سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی اپنی حکومت جسے اپنے موافق عوام اور خاص طور پر موافق غریب بہبودی پروگرامس پر فخر ہو ہرگز نہیں چاہے گی کہ لوگ اسے ناکام قرار دیں۔ یا ناکامیوں کے لئے اسے ذمہ دار قرار دیں۔ ایسی حکومت یہ بھی گوارا نہیں کرے گی کہ متوسط طبقہ اور ورکنگ کلاس اس سے بدظن ہو۔ دونوں بھی اس کے لئے اہم ہیں اس کے باوجود یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی حکومت میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اقتصادی کارکردگی غیر معمولی طور پر مایوس کن رہی یہاں تک کہ شرح قومی مجموعی پیداوار بھی مسلسل روبہ زوال ہے۔ ان تمام حالات میں بی جے پی کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہرحال میں اپنی شبیہہ کو بہتر بنائے رکھے ۔ عوام اس کی ناکامیوں پر توجہ ہی نہ دیں چنانچہ کامیاب سیاستدانوں کے امیج کو برقرار رکھنے مودی۔ شاہ اب ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات اور ایسے بحران جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ساتھ ہی کئی ایک چیلنجس سے بچاؤ کے لئے جس میں زرعی شعبہ سے لیکر شعبہ صحت تک شامل ہے کچھ نہ کچھ اقدامات کئے جائیں جن سے عوام پر بی جے پی کا جادو چھایا رہے۔ بی جے پی اس بات کو لے کر بے فکر ہوگئی تھی کہ 2019 کے عام انتخابات میں نریندر مودی کو 2014 کے عام انتخابات کی بہ نسبت بہت زیادہ اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی اور اس کے بعد غیر معمولی خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی کی زیر قیادت حکومت نے بعض سخت پالیسی ساز فیصلے کئے تھے جن میں جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے آرٹیکل 370 کی برخواستگی سے لیکر طلاق ثلاثہ پر قانون سازی اور شہریت ترمیمی قانون کی منظوری شامل ہیں لیکن کورونا وباء کے دوران ملک میں عام شہریوں اور مزدوروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان سے مودی حکومت کی شبیہہ ضرور متاثر ہوئی۔ اس شبیہہ کو بہتر بنانا بی جے پی مودی اور امیت شاہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس معاملہ میں انہیں مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے سے ہی مدد مل سکتی ہے۔ فرقہ پرستی ہی وہ موثر ہتھیار ہے معاشی سست روی، غلط حکمرانی کورونا وائرس وباء کے دوران بدترین کارکردگی ان تمام پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ عوام کی توجہ اہم مسائل سے معمولی چیزوں پر لے جاسکتی ہے۔ آج ریاستی حکومتیں بھی مودی کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہیں۔ اسے آنکھیں دکھا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ریلویز اور پروازوں کے آغاز کے معاملہ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان کافی الجھن پائی گئی۔ اس معاملہ میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مودی۔ امیت شاہ جوڑی جانتی ہے کہ ان کا پی آر گیم خطرہ میں ہے اور اس کا آہستہ آہستہ بھانڈا پھوٹ رہا ہے۔

بی جے پی کے جو ووٹرس ہیں وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ پارٹی مذکورہ اہم ایجنڈہ و موضوعات سے چپکے رہے اور اس کے لئے جو مسائل پریشان کن ہو ان سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ہندو ۔ مسلم اور ہندوتوا ہی کرتے رہیں۔ بہرحال مودی حکومت کو آج بیروزگاری، غربت، خراب معیشت، مزدوروں کی حالت زار تعلیم و صحت کے شعبوں میں جو بھی مسائل درکار ہیں اور جو ناکامیاں ہوئی ہیں یہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف ہندوتوا نامی گولی سے ہوسکتا ہے۔