مودی حکومت کے گیارہ سال ایک تنقیدی جائزہ

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
اگر دیکھا جائے تو ہر نقطہ نظر کا ایک درست یا صحیح جواب نہیں ہوتا ،مثال کے طورپر دنیا کے مشہور و معروف سائنسداں البرٹ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت Special Theory of Relativity پر کئی ایک سائنسدانوں نے سوال اُٹھائے اُسے چیلنج کیا ، ان سائنسدانوں میں جینت نارلیکر بھی شامل ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ جب تک کسی نظریہ کے پیچھے کسی بدنیتی کا جذبہ کارفرما نہ ہو ہر نقطہ نظر میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوتی ہے اور اس کااحترام کیا جانا چاہئے اور یہی وہ اچھائی یا خوبی ہے جو موجودہ این ڈی اے حکومت نے 11 برسوں کے اپنے اقتدار میں پروان نہیں چڑھائی ۔
آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ مسٹر نریندر مودی نے حال ہی میں بحیثیت وزیراعظم 11 سال مکمل کرلئے ہیں ، اس طرح انھوں نے طویل مدت تک عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والے ملک کے تیسرے وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے یہ اُن کی مستقل مزاجی اور اپنی پارٹی کیلئے انتخابات جیتنے سے متعلق اُن کی صلاحیت کا ثبوت ہے ۔ واضح رہے کہ ہر حکومت میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہیں خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اور مودی کی زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد حکومت اس سے مستثنیٰ نہیں ۔
مودی حکومت کا اپنا زیادہ تر زور اعداد و شمار پر ہے ، ویسے بھی کسی بھی ترقی پذیر ملک میں عام اقتصادی پیمانہ صرف تعداد میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔ مثال کے طورپر یہ بتایا جاتا ہے یعنی حکومت یہ بتاتی ہے کہ اس نے ملک میں یا ریاست میں کتنے اسکولس کی تعمیر عمل میں لائی ، کتنی سڑکیں بچھائیں ، وہ عوام کو یا اپوزیشن جماعتوں کو یہ بتانے سے گریز نہیں کرتی کہ ہم نے اس تعداد میں اسکولس تعمیر کرائے اور اتنے کیلومیٹر تک سڑکیں بچھائیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو حکومت کی کارکردگی اس کے مظاہرہ کو عوام کے معیار اور عوامی پیمانہ کی بنیاد پر پرکھا جانا چاہئے ۔
عوامی پیمانہ اچھی حکمرانی پر مبنی ہوتا ہے ، اچھی حکمرانی میں ملک کو ( سب کیلئے بہتر ) زیادہ سے زیادہ مضبوط اور منصفانہ مقام سمجھا جاتا ہے جہاں فرد اور افراد محسوس کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کی معیار زندگی میں بہتری آرہی ہے لیکن ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ حکومت اور حکمرانی کی خوبی کو صرف اعداد و شمار کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا ۔ میرے خیال میں ( یہ میرا اپنا جائزہ ہے ) آج کا ہندوستان 2014 ء کی بہ نسبت نہ زیادہ بہتر ہے ، نہ زیادہ مضبوط و مستحکم ہے اور نہ ہی منصفانہ مقام ہے ۔ اگرچہ ملک میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آئی اس کے باوجود ہمارے ملک میں اب بھی ایسے کروڑوں افراد ہیں جو غیریقینی حالات ، شدید غربت ، بیروزگاری ، خوف اور آسماں کو چھوتی مہنگائی کا شکار ہیں۔
کیا ہندوستان سب کیلئے بہتر ہے ؟
اس معاملہ میں ہم آپ کو بتاسکتے ہیں کہ اقتصادی اصلاحات اور فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کے شروع کرنے کا مقصد ہندوستان کے شرح نمو کو بڑھانا تھا ۔ یو پی اے حکومت کے دس سالہ (2004-2014) دورِ حکومت میں قومی مجموعی پیداوار کی اوسط شرح نمو 7.46 فیصد ( قد یم سریز ) اور 6.7 فیصد ( نئی سریز ) تھی لیکن 2014-15 کے بعد اور خاص طورپر 2019-20 کے بعد جو سرکاری اعداد و شمار منظرعام پر آئے اس میں شرح نمو کے کم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ شرح نمو گررہی ہے ۔ سال 2024-25 ء میں بھی اوسط نمو کا مشاہدہ کیا گیا ۔ آپ کو بتادیں کہ سال 2014-15 ء سے کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ (CAGR) 6.1 فیصد تھی اور سال 2019-20 سے CAGR گرکر 5.1 فیصد ہوگیا ۔
آپ کو یہ بھی بتادیں کہ زراعت، صنعت اور مینوفیکچرنگ شعبہ میں ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی ہے اور سردست مذکورہ تمام شعبے 5 فیصد سے بھی کم شرح پر بڑھ رہی ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان میں صرف خدمات کا شعبہ ہی 5.4 فیصد پر ہے۔ اقتصادی ماہرین سے لے کر ایک عام ہندوستانی شہری بھی یہی کہتا ہے۔ یہی مانتا ہے کہ اگر کسی ملک کی ترقی کا اندازہ لگانا ہوتو پہلے اس کی فی کس اوسط آمدنی کو دیکھئے اور یہی کسی بھی ملک کی ترقی کا بہتر پیمانہ ہے، نہ کہ قومی مجموعی پیداوار ہے۔ راقم الحروف آپ کو یہ ضرور بتانا چاہے گا کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کے دوران فی کس اوسط امدنی میں دس برسوں (2004 تا 2014 ) کے دوران 2.64 گنا اضافہ ہوا۔ 2004 سے پہلے ہماری فی کس اوسط امدنی 543 ڈالرس تھی جو بڑھ کر 2014 تک 1438 ڈالرس ہوگئی ۔ دوسری طرف بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کے 10 برسوں میں فی کس اوسط آمدنی میں صرف 1.89 گنا اضافہ ہوا یعنی 1438 امریکی ڈالرس سے بڑھ کر 2711 امریکی ڈالرس ہوگئی اور مودی حکومت کے 11 ویں سال میں فی کس اوسط آمدنی 2878 تک پہنچ گئی ۔ اس معاملہ میں ہمارا وطن عزیز ہندوستان 196 ملکوں میں 136 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ بہرحال مودی حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اس کے دعوے دوسرے دعوؤں کی طرح کھوکھلے ہوتے ہیں۔