’’مودی راج جمہوریت کیلئے کلنک‘‘

   

محمد نصیرالدین

ہندوستان 71 واں جشن جمہوریہ منا رہا ہے اور بجا طور پر ہندوستانی عوام اس بات پر قابل مبارکباد ہیں کہ وہ ایک عظیم جمہوری ملک کے باشندے ہیں جہاں جمہوریت نہ صرف مضبوط اور طاقتور ہے بلکہ ایک طویل عرصہ کے باوجود مستحکم بھی ہے۔ یہ بات ہندوستانی عوام کے لئے قابل فخر ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود یہاں کے عوام نے سخت محنت اور کوشش کے ذریعہ تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، پانی، بجلی، الیکٹرانکس، کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی کے علاوہ تمام ہی شعبہ حیات میں بے انتہا ترقی کی ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس کا شمار ہونے لگا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب اور نظریات کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارہ، رواداری اور دوستانہ تعلقانہ تعلقات کی درخشاں روایات میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ اسی طرح شہریوں کے درمیان نفرت و تعصب کی دیواریں کھڑی ہونے لگی ہیں۔ جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، اخلاقی اقدار میں تنزل دیکھا جارہا ہے۔ معاشی جرائم کی کثرت ہونے لگی ہے۔ سیاست مفادات حاصلہ کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ حق و انصاف اور سچائی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ دھوکہ، فریب اور جعلسازی زوروں پر ہے اور لگتا ہے کہ اب ہندوستان کی عظیم جمہوریت کو بھی گہن لگنے لگا ہے چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت اور نریندر مودی کی سربراہی میں قائم مرکزی حکومت نے اپنی دوسری میعاد کے آغاز ہی سے ہندوستان کی ایک منفرد اور مثالی شناخت کو داغدار کرنا شروع کردیا ہے اور ملک بھر میں نراج، بدامنی اور بے چینی کی فضاء پیدا کردی ہے، نوجوان بیروزگاری سے پریشان ہیں، تاجر مختلف ٹیکسوں کے تلے دبے جارہے ہیں، کسان نقصانات سے بدحال ہوچکے ہیں، غرض یہ ہے کہ تمام شعبہ حیات سے متعلق افراد حکومت کی غلط پالیسیوں اور غلط کاریوں کا شکار ہیں۔ عوامی تائید سے بننے والی حکومت کو یقینا یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملک اور ملک کی عوام کی فلاح بہبود تعمیر اور ترقی کیلئے نئے پروگرام بنائے اور دستور کے چوکھٹے میں رہتے ہوئے بعض پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرے۔ چنانچہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مختلف پارٹیوں نے حکومت کو تشکیل دیا لیکن کسی نے بھی دستور اور دستور کے تقاضوں کو بالائے طاق نہیں رکھا بلکہ دستور کا مکمل احترام کیا اور دستوری حدود و قیود کو پھلانگنے کی جرأت و حماقت کبھی نہیں کی اگرچیکہ بعض اوقات دستور کو صلب کرنے یا کم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس طرح کی کوشش کبھی بھی بارآور نہیں ہوسکیں۔ دستور ہند کے معماروں نے بہت ہی دقیق انداز میں غوروفکر کرتے ہوئے دوررس اثرات و نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک متوازن دستور اس حقیقت کی روشنی میں مرتب کیا کہ اس ملک میں مختلف عقائد مذاہب، نظریات، زبان، علاقہ اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور تشکیل دستور میں معمولی لغزش بھی ملک کی سلامتی اتحاد اور بھائی چارہ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، تاہم ایک مخصوص گروہ جو تقسیم ہند پر چراغ پا تھا۔ اس دستور سے ہمیشہ اختلاف کرتا رہا اور اس بات کا مطالبہ کرتا رہا کہ اس ملک کو ’’ہندوراشٹر‘‘ قرار دیا جائے اور مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے حقوق اور مراعات سے محروم رکھا جائے لیکن چونکہ اس نظریہ کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں رہی، یہ گروہ کامیاب نہیں ہوسکا لیکن برابر وہ اس مطالبہ کو لے کر آواز بلند کرتا رہا۔ اس گروہ نے اپنے نظریات کو عام کرنے اور دیگر عوام کو اپنا حامی بنانے کے لئے مختلف کوششیں کیں اور فرقہ وارانہ فسادات اور منافرت کا بازار گرم کیا۔ رام مندر، یکساں سیول کوڈ، دفعہ 370 اور اسی طرح کے حساس مسائل کو لے کر عوامی تائید میں اضافہ کرتا رہا۔ حتی کہ اپنے ایجنڈہ کی کامیابی کیلئے اس نے دیگر نظریات کی حامل جماعتوں سے اتحاد بھی کیا اور زعفرانی جماعت کو طاقتور بناتے رہے، بالآخر زعفرانی نظریہ کو 73سالہ طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوگئی۔ طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد حاصل اکثریت کو زعفرانی جماعت نے اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے خوب استعمال کیا اور اولاً تمام جمہوری اداروں عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور صحافت کو اپنے قبضہ میں کرلیا پھر اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ برسراقتدار طبقہ کے انداز حکومت اور طریقہ کار کا جائزہ لیں تو یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ دیگر طبقات اور دیگر نظریات کے حامل افراد کی فلاح بہبود اور ترقی سے انہیں خدا واسطہ کا بیر ہے اور ان کے ایجنڈے کے خلاف کوئی بھی تجویز رائے اور مشورہ ان کے نزدیک قابل اعتناء نہیں ہے چنانچہ آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے دستور کی اس ہدایت کو کہ متعلقہ ریاست کی اسمبلی سے رائے حاصل کی جائے، یکلخت نظرانداز کردیا گیا۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کی دھجیاں بکھیردی گئیں۔ بابری مسجد کے مقدمہ میں تاریخی حقائق و شواہد کے مقابلہ میں ’’آستھا‘‘ کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح ’’شہریت ترمیمی قانون بناتے ہوئے بنیادی حقوق اور آرٹیکل 14 میں دیئے گئے ’’مساوات‘‘ کے حق کو صلب کرلیا گیا۔ جمہوریت کی یہ اعلیٰ شان ہے کہ حکمراں عوامی رائے اور عوامی اُمنگوں کا احترام کرتے ہیں لیکن مرکزی حکومت لگتا ہے کہ تانا شاہی طرز پر چل رہی ہے چنانچہ اس بل کے خلاف زبردست اور مسلسل احتجاج کے باوجود حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ اس بل کو ہرگز واپس نہیں لے گی!!
اہل حکومت کے اس مطلق العنان طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز دانشور اروندھتی رائے نے کہا کہ ’’موجودہ ہندوستانی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے جرمنی کے درمیان مشابہت تکلیف دہ ہے لیکن یہ حیرت انگیز قطعی نہیں ہے کیونکہ آر ایس ایس کے بانی اپنی تحریروں میں نازی ہٹلر اور اس کے طور و طریق کے گن گاتے رہے ہیں۔ دونوں میں ایک فرق یہ ہے کہ یہاں ایک ہٹلر نہیں بلکہ پورا سنگھ پریوار ہے جس میں آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل شامل ہیں۔برصغیر کے ممتاز دانشور اور مفکر پروفیسر خورشید احمد ہندوستان کے موجودہ حالات کو سامراجی استبداد سے تعبیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’آزادی کے نام پر دوسروں کو آزادی سے محروم کرنا‘‘۔ تہذیب و تمدن کے نام پر تہذیب کی تمام اقدار کو پامال کرنا، تعلیم کے نام پر علم کی شمعیں گل کرنا، ترقی کے نام پر سرمایہ حیات کو لوٹ لینا، امن و آشتی کے نام پر قوموں اور ملکوں کو تاراج کرنا، جمہوریت کے فروغ کی خاطر جمہور کا خون چوسنا، مضبوط حکومت کے نام پر انسانی حقوق کو روندنا، یہ ہے سامراجی استبداد کی تاریخ، ہر ملک میں سامراج نے یہی کیا۔ برعظیم ہند و پاک کی سرزمین بھی، اسی ظلم و فساد، دھوکہ اور بے رحمانہ نفاق کی آماجگاہ بنی اور ہر دیکھنے والی آنکھ نے دیکھا:
یہ صحن و روش ، یہ لالہ و گل
ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
تعمیر جنوں کے پردے میں
تخریب کہ ساماں ہوتے ہیں
ظالم ہمیشہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں، وہ عوام ہی کے فائدے اور بھلائی کی خاطر کررہے ہیں۔ جو طریق حکمرانی انہوں نے اختیار کیا ہے، وہ ملک کے حالات اور لوگوں کے مزاج کے بالکل مطابق ہے۔ صرف انہیں کا بنایا ہوا نظام حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور جو کوئی ان کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ یا ان کے طریقہ سے اختلاف کرتا ہے۔ وہ شرپسند، فسادی ملک دشمن اور سولی پر چڑھا دینے کے لائق ہے۔ آزادیوں پر پابندی بے حد ضروری ہے۔ جمہوریت کی فضاء سازگار نہیں ہے۔ حقوق کی بحث محض مفاد پرستوں کی اٹھائی ہوئی ہے۔ ظالم اپنے ظلم کے لئے ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کو خوشنما بناکر پیش کرنے ہی کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کی نیتوں پر بے دریغ حملے کرتے ہیں اور آزادی، جمہوریت اور عوامی اصلاح کی ہر تحریک کی مخالفت کرتے ہیں۔ شہریت ترمیمی بل کے خلاف بلاتفریق مذہب و ملت سارا ملک کھڑا ہے، مرد ہی نہیں عورتیں اور بچے و جوان میدان میں ہیں لیکن جنگ آزادی میں جس طرح انگریزوں کی حمایت میں چند منافقانہ کردار سامنے آئے ٹھیک اسی طرح کیرلا کے راج بھون اور یوپی کی وزارت سے:
ننگ آدم ، ننگ دین ، ننگ وطن
قوم و ملک کے ساتھ غداری میں پیش پیش ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے متعلق تحریک آزادی ہند کے عظیم ہیرو مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا ’’آہ غیرت مسلم! کہ جس کا جینا مرنا صرف خدا کے لئے مخصوص تھا، آج کس طرح وفاداریوں اور نیاز مندیوں کا مظاہرہ کرکے جاہ و مال کو تک رہی ہے ، جس کی حق گوئی و بیباکی کو اپنے تو اپنے غیر بھی تسلیم کرتے تھے، آج کن کن طریقوں سے مطلب برآری اور خوشنودیٔ مزاج حاصل کرنے میں صرف ہورہی ہے جس کے شیوۂ خدا پرستی اور احساس ذمہ داری کے کبھی ڈنکے پٹتے تھے، آج دنیا کی آسائش و آرام کی خاطر اس کی جبین نیاز کس کس طرح ایک ایک در کو تلاش کرتی پھر رہی ہے، آہ غیرت مسلم تجھے کیا ہوگیا؟سوچو کہ اس فانی زندگی میں وہ کونسا طریقہ ہے جو اختیار کیا جائے جو عزت و وقار کے ساتھ ہماری موجودہ زندگی کو موت کے دروازے تک پہنچا دے اور دوسری زندگی کے لئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جائے۔ پھر غلط فہمی نہ رہے کہ عزت و وقار صرف اللہ، رسول اور اپنی زندگی کے سارے کاموں کو اللہ کی تابعداری میں صرف کرنے والے انسانوں کے لئے مخصوص کردی گئی ہے۔
کیا اس حقیقت سے کسی کو انکار ہوسکتا ہے کہ دنیا کی ایک عظیم جمہوریت آج وقت کے بدترین دور سے گذر رہی ہے، جن لوگوں نے دستور کی پابندی اور حفاظت کا حلف لیا تھا، وہی اس کے دستور کے ساتھ دغا اور بے وفائی کررہے ہیں، دستور کی عظمت اور احترام کو تار تار کررہے ہیں، دستور کی روح اور اس کے مطلوبہ کردار کو داغدار کرنے میں لگے ہیں۔ اقتدار کے پندار اور سحر نے انہیں ملک کی سلامتی اور یکجہتی سے بے گانہ کردیا ہے، ان کی انانیت نے سارے ملک کو بے چینی اضطراب اور غیریقینی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ یقینا یہ بات خوش آئند اور باعث اطمینان ہے کہ ملک بھر میں موجودہ صورتحال کو لے کر یک گونہ بیداری اور ہوش مندی پیدا ہوچکی ہے اور برادران وطن کے ساتھ اہل ایمان بھی شانہ بہ شانہ ملک کی صورتحال کو بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں اہل ایمان کو یہ نکتہ ضرور اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ’’اہم یہ ہرگزنہیں ہے کہ مسلمان ہندوستان میں کس طرح زندہ رہ پائیں گے؟ اور ان کی شہریت کے متعلق کیا ہوگا؟ بلکہ اہم ترین یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی جتنی قیمتی ہے، اس سے زیادہ قیمتی ان کا دین و ایمان ہے اور اس کی پاسداری، تابعداری اور حفاظت کیوں اور کیسے ممکن ہے اور اگر زندگی کی حفاظت بھی ہوجائے اور شہریت بھی مل جائے لیکن دین و ایمان باقی نہ رہ پائیں تو یہ زندگی تو کیا ایسی ہزاروں زندگیوں پر بھی لعنت ہے اور ایسی بے دین زندگی سے سبھی کو پناہ مانگنی چاہئے، چاہے وہ کتنی ہی شاندار اور عیش و عشرت والی کیوں نہ ہو، شہریت ترمیمی بل کے خلاف ہونے والے احتجاج سے حکومت کی بے اعتنائی جہاں افسوسناک ہے، وہیں بل سے اختلاف رکھنے والوں اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ حکومت کا ظلم و استبداد کا رویہ سخت تشویشناک ہے، تاہم تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ظلم و جبر کی رسی چاہے کتنی طویل کیوں نہ ہو، انتہائی کمزور ہوتی ہے، ارباب حکومت کتنی ہی سفاکی اور ظلم کا مظاہرہ کریں لیکن حق پرستوں کی استقامت کے مقابلہ میں وہ ٹھہر نہیں پاتے، اسی طرح آواز حق کو دبانے کی تمام تر سازشیں اور کوششیں تاریخ میں ہمیشہ تار عنکبوت ثابت ہوتی رہی ہیں، میدان کار کے ہر سپاہی کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ انشاء اللہ وہ دن آئے گا جب برسراقتدار گروہ کے تاناشاہی کردار کا سورج غروب ہوگا اور اہل حق کا حوصلہ، قربانی اور جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوںگے، انشاء اللہ:
نکلے گا سچ کا سورج اسی کالی رات سے
تو اس پر خوش نہ ہو کہ تیرا جھوٹ چل گیا