مودی سمجھ گئے کہ ’’کشتی ‘‘بھنور میں ہے

   

یشونت سنہا
وزیراعظم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حیرت انگیز اقدامات اور حیرت انگیز فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے فیصلے جو نہ صرف عوام بلکہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو بھی حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے قوم سے خطاب میں تین زرعی قوانین کی منسوخی کے فیصلے کا اعلان کیا جس نے ہر کسی کو حیران کردیا۔ انہوں نے اس اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ آج گرو پرب (گرونانک دیو جینتی) کا مقدس دن ہے، اسی دن اندرا گاندھی کا یوم پیدائش بھی تھا۔ حسن اتفاق سے وزیراعظم اور اندرا گاندھی میں یہ باتیں مشترکہ ہیں یعنی حیرت انگیز فیصلے کرنا اور اپنے مفاد کے مطابق قدم پیچھے ہٹانا۔ وزیراعظم کا اندرا گاندھی سے تقابل اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ اندرا گاندھی نے جب یہ دیکھ لیا کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ایمرجنسی ناقابل قبول ہے تب انہوں نے ایمرجنسی واپس لینے کا اعلان کیا۔ ویسے ہی وزیراعظم نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا۔مودی جی ایک الیکشن جیوی (جس کا دارومدار انتخابات پر ہوتا ہے) ہیں اور آنے والے مہینوں اور سال میں پانچ ریاستوں کے انتخابات ہونے والے ہیں جن میں سب سے اہم اسمبلی انتخابات یوپی کے ہیں اور جو انتخابی مہم شروع کی گئی ہے، ابتداء ہی سے اس میں شدت پیدا ہوگئی، اسے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوپی انتخابات ٹکر کے اور بہت سخت ہونے والے ہیں۔ شاید وزیراعظم نے یہ دیکھ لیا کہ شکست انہیں گھور گھور کر دیکھ رہی ہے ایسے میں ان کے پاس کسانوں کے خلاف بنائے گئے تین سیاہ قوانین سے دستبرداری کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
جس وقت وزیراعظم قوم سے خطاب کررہے تھے، اس وقت ان کا چہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بڑے ہی عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کررہے تھے۔ انہوں نے کسانوں سے معذرت خواہی بھی کی، لیکن ان کے یہ تمام حربے کسانوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے، کیونکہ ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی بلکہ داغدار تھی۔ اب تو یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ ہندوستان بھر کے کسانوں کی مخالفت کے باوجود مودی نے ان زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کیلئے اس قدر یہ طویل وقت کے بعد فیصلہ کیوں لیا؟ جبکہ بے شمار کسان یہ قائل کرانے کی کوشش کرتے ہوئے موت کے منہ میں جا پہنچے کہ زرعی قوانین کسانوں کے مفاد میں نہیں۔ لیکن وزیراعظم کو بڑی دیر سے سمجھ آئی۔ آخر وزیراعظم یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ کسان زرعی قوانین کے خلاف ہیں اور ان لوگوں اس کی بڑی شدت سے مخالفت کی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے جو خود کو کسانوں کا ہمدرد بتاتے ہیں، ان ہزاروں کسانوں کے احتجاج کے باوجود وزیراعظم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ جب کسان کھلے مقامات پر دھرنا دیئے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں شدید گرمی، سخت سردی کا سامنا تھا۔ انہیں اس بات کا پتہ کیوں نہیں چلا کہ قومی دارالحکومت دہلی کے قریب ہی کسان سخت موسم میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے آخر کسانوں کے احتجاجی مقام پر کسانوں سے بات چیت کیلئے اپنا کوئی کابینی ساتھی روانہ کیوں نہیں کیا؟ وزیراعظم کا جس انداز میں امیج بنایا گیا چاہے وہ میڈیا کے ذریعہ ہو یا سوشیل میڈیا کے ذریعہ، اس کیلئے ہندوستانی عوام ذمہ دار نہیں بلکہ مودی کے وہ بھگت ذمہ دار ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ مودی جیسا عظیم وزیراعظم ہندوستان میں اب تک پیدا نہیں ہوا۔ بھگت ہمیں یہ قائل کروانے کی کوشش کررہے تھے کہ مودی ایک نڈر، مضبوط اور بلند حوصلہ رکھنے والے لیڈر ہیں، لیکن اب ان کا امیج بالکل بدل گیا ہے، اور یہ کہا جارہا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ مودی نے زرعی قوانین تو منسوخ کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر تمام زور لگا دیا تھا۔ اپنی شخصیت کو تک جھونک دیا تھا، لیکن جیسے ہی انہوں نے زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نہ صرف کمزور ہیں بلکہ کسانوں کے گناہ گار بھی ہیں اور مودی نے بھی غلطیاں کی ہیں جیسے ہم سب نے کیں اور زندگی بھر جس کا افسوس رہے گا۔ ان کی شبیہ شدید متاثر ہوئی ہے۔ دراصل انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ان کے ایک دو صنعت کار دوست ان کے اے ٹی ایمس ہوسکتے ہیں، لیکن وہ انہیں انتخابات میں ووٹ نہیں دلا پائیں گے۔
جہاں تک اندرا گاندھی سے ان کے تقابل کا سوال ہے ، اندرا گاندھی کی شخصیت ، مودی کی شخصیت سے بہت آگے ہے، کیونکہ تاریخ میں چند شخصیتیں ایسی ہیں جنہیں ایک نئے ملک کی تخلیق کا کریڈٹ دیا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد اپنی انتخابی فتح کے اندرون چار سال اندرا گاندھی عوام میں مقبولیت کھو بیٹھیں اور پھر انہوں نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اس وقت ہاریں جب انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ ان لوگوں کے پاس جائیں گی، جنہوں نے انہیں سبق سکھایا ۔آج خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت زندہ ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جئے پرکاش نارائن اور طلباء تحریک نے اندرا گاندھی کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ آج کوئی جئے پرکاش نارائن نہیں اور نہ ہی ہمیں ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان کے کسانوں نے بتا دیا ہے کہ اگر لوگوں کے کسی گروپ میں عزم و حوصلہ ہو تو پھر حالات بدل سکتے ہیں۔ ماضی میں چند لوگوں نے ہی مطلق العنان حکمرانوں کا اقتدار اکھاڑ پھینکا تھا ، آج ان ہی لوگوں نے پھر ایک مرتبہ حکومت اور حکمراں کو ان کی اوقات دکھائی ہے، اور مستقبل میں بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہندوستانی جمہوریت زندہ باد۔