مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو مقبول بنادیا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہمارے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی آج کل بہت زیادہ چرچے میں ہیں اور اس کی وجہ کانگریس کے انتخابی منشور پر اُن کی تنقید اور راجستھان میں انتخابی مہم کے دوران کی گئی اُن کی تقریر ہے ۔ انھوں نے راجستھان میں ایک نہیں بلکہ دو مقامات پر نفرت انگیز تقریر کی ۔ بہرحال وزیراعظم نریندر مودی نے غیرمعمولی اور بے نظیر جذبہ خیرسگالی اور تعاون و اشتراک کا مظاہرہ کرتے ہوئے باالفاظ دیگر دست تعاون آگے بڑھاتے ہوئے رضاکارانہ طورپر کانگریس کے انتخابی منشور کو ازسرنو تحریر کرنے کا کام خود کے تفویض کرلیا ہے اور اس معاملہ میں انھوں نے اپنی خدادا صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوچ و فکر اپنے خیالات ، اپنے نظریات و آئیڈیاز کو اس انتخابی منشور سے جوڑنے کی بات بھی کی ہے ( یہ دراصل راقم الحروف کا پچھلے ہفتہ جو کچھ ہوا ہے وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور سے متعلق جو کچھ تبصرہ کیا ہے اس پر طنزیہ تبصرہ ہے ) میں مودی جی کے عجیب و غریب ریمارکس پر اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ اگر دیکھا جائے تو ان تمام تبدیلیوں کے پیچھے ایک بہت بڑی کہانی ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 14 اپریل کو بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا تب سے مودی جی بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور کو لیکر خوش نہیں ہیں ۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں وزیراعظم نریندر مودی بی جے پی کے انتخابی منشور سے ناخوش ہیں ۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے بڑے طمطراق سے پارٹی کا انتخابی منشور برائے عام انتخابات 2024 ء کی تیاری کیلئے بڑے ہی بھولے بھالے سمجھے جانے والے مرکزی وزیر راجناتھ سنگھ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی نے بڑی محنت سے انتخابی منشور تیار کیا ۔ اُمید تھی کہ وزیراعظم اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کا جائزہ لینے کے بعد فرطِ مسرت سے سرشار ہوں گے لیکن جیسے ہی مودی نے دوسرے انداز میں برہمی کا اظہار کیا کمیٹی کو انداز ہ ہوگیا کہ انتخابی منشور مودی جی کو پسند نہیں آیا چنانچہ بی جے پی کی انتخابی منشور کمیٹی نے فوری پینترا بدلتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کا انتخابی منشور نہیں ہے بلکہ اُس ایک شخصیت کی خدمات کو خراج تحسین ہے جس نے پارٹی کو مضبوط و مستحکم بنایا اور جو پارٹی کی ہر کامیابی کا ذمہ دار ہے ۔ ( یہ اور بات ہے کہ اس پارٹی کی کسی بھی ناکامی کا ذمہ دار قرار دینے کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا ) کمیٹی نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے دستاویزات ( انتخابی منشور ) کو مودی کی گیارنٹی کا نام دے دیا ۔ تاہم مسٹر مودی نے درست اندازہ لگایا تھا اور ایسا ہی ہوا ۔ اجرائی کے چند گھنٹوں بعد ہی مودی کی گیارنٹی اپنا کوئی نشان کا چھاپ چھوڑے غائب ہوگئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج ملک میں بی جے پی کے انتخابی منشور کی کوئی بات نہیں کرتا ۔ خود مودی جی بھی اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کے بارے میں اظہارخیال کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مودی کی گیارنٹی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کا رام رام ستیہ ہوگیا یعنی اس کے لئے RIP ( ریسٹ ان پیس ) کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں ۔
بی جے پی کا انتخابی منشور ایک طرح سے مودی کیلئے گلے میں پھنسا کانٹا بن گیا ہے جو اندر جاتا ہے اور نہ ہی باہر نکل آتا ہے۔ مودی کی گیارنٹی کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکے نہ ہی وہ انتخابی منشور کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی پر کھل کر تنقید کرسکے۔ ایسے میں مودی جی نے کانگریس کے انتخابی منشور کا جائزہ لے کر اُس کا مطالعہ کرنے اور پھر اس پر تبصرہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان کے جائزہ لینے کے بعد سارے ملک میں کانگریس کا انتخابی منشور چھاگیا اور عوام میں بھی اس کے بارے میں جاننے کیلئے دلچسپی بڑھ گئی ۔ بہرحال یہ مودی جی کے باعث ہی ممکن ہوسکا کہ عوام نے بی جے پی کے انتخابی منشور کو زیادہ اہمیت نہیں دی اس کے برعکس کانگریس کے انتخابی منشور کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ اس میں پیش کردہ نکات و وعدوں کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ہماری ہندوستانی ادب یا لٹریچر کی عظیم روایت ہے کہ اس پر کئے گئے تبصرے حقیقی کام سے زیادہ اہم بن جاتے ہیں ۔ کانگریس کے انتخابی منشور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ مودی جی نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا ۔ تنقیدی انداز میں تبصرہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کانگریس کا انتخابی منشور عوام میں مقبول ہوگیا ۔ (یہ اور بات ہے کہ اس معاملہ میں مودی جی کی نیت ٹھیک نہیں تھی) ۔ مودی جی نے کانگریس کے انتخابی منشور پر کچھ اس طرح تبصرہ کئے :
٭ کانگریس عوام کی اراضیات ، سونا اور دیگر قیمتی اثاثہ جات مسلمانوں میں تقسیم کردے گی ۔
٭ کانگریس لوگوں کی جائیدادیں و املاک ، خواتین کے پاس موجودہ سونے اور چاندی کے زیورات کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے ایک سروے کا اہتمام کرے گی اور یہ تمام چیزیں اُن سے چھین لے گی ۔
٭ کانگریس سرکاری ملازمین کی اراضیات اور نقد رقومات ضبط کرکے اُن کی بھی تقسیم عمل میں لائے گی ۔
٭ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے دورِ حکومت میں یہ کہا تھا کہ ملک کے قدرتی وسائل پر سب سے پہلا حق مسلمانوں کا ہے اور جس وقت ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہ بات کہی تھی میں (مودی ) گجرات کے عہدہ چیف منسٹر پر فائز تھا ۔
٭ کانگریس آپ کے منگل سوتر اوراستری دھن وہ بھی حاصل کرے گی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں اُن کی تقسیم عمل میں لائے گی ۔
٭ اگر گاؤں میں آپ کا گھر ہے ، اور آپ ٹاؤن میں چھوٹا سا فلیٹ خریدتے ہیں ، کانگریس اس میں سے ایک مکان حاصل کرکے کسی اور کو دیدے گی ۔
بی جے پی رفقاء میں مسابقت
مودی کے بااعتماد رفیق اور مشیر مسٹر امیت شاہ نے وزیراعظم سے دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ کانگریس اقتدار میں آئے گی تو مندر کی جائیدادیں ضبط کرکے اُن کی تقسیم عمل میں لائے گی ، ایسے میں راج ناتھ سنگھ کہاں خاموش رہنے والے تھے انھوں نے مزید دو قدم آگے بڑھتے ہوئے کہاکہ کانگریس لوگوں کے اثاثوں پر قبضہ کرلے گی اور ان اثاثوں کو دراندازوں میں تقسیم کرے گی ۔ مسٹر راجناتھ سنگھ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ کانگریس نے مسلح افواج میں مذہب پر مبنی کوٹہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ کانگریس کے انتخابی منشور پر عجیب و غریب تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ایسے میں مودی جی نے ایک نئی دریافت لوگوں کے سامنے لائی اور بتایا کہ کانگریس محاصل ترکہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنارہی ہے ۔ اس دوران تبصروں کی اس دوڑ میں مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن بھی کود پڑیں اور اپنی عقل و دانش کا بھرپور مظاہرہ کرنے لگی ۔ وہ شائد یہ فراموش کرگئیں کہ کانگریس حکومت 1985 ء میں Estate Duty ( محاصل ترکہ کی ایک قسم) کو ختم کرچکی ہے اور وہ ویلتھ ٹیکس بی جے پی حکومت نے 2015 ء میں ختم کیا ۔