مودی کا سب کا ساتھ:اندرون ایک ماہ مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان میں ’وکاس‘

,

   

نئی دہلی: نریندر مودی 2014ء سے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ الاپ رہے ہیں لیکن حقیقی صورتحال ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلم کمیونٹی کیلئے نہایت تشویشناک ہے۔ وزیراعظم مودی نے 2024ء تک دو میعادوں کے دوران بی جے پی کی اکثریت والی حکومتوں کی سربراہی کی، جس کے دوران مسلمانوں پر ماب لنچنگ کے اختراعی ظلم کی شروعات ہوئی پھر اسرائیلیوں کی تقلید کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر چلانے کی روش اختیار کی گئی۔ 2014ء سے 2024ء تک مودی زیرقیادت بی جے پی حکومتیں ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف نت نئے مظالم سے بھری پڑی ہے پھر بھی بی جے پی تیسری بار سب سے بڑی پارٹی بن کر تلگودیشم اور جنتادل یو کے سہارے این ڈی اے حکومت کے نام پر اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس سارے دور میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پر لگاتار سوال اٹھائے جاتے رہے لیکن مودی حکومت نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے بشمول لگ بھگ سبھی سرکاری اداروں کو اس قدر دباؤ میں لایا ہیکہ واجبی مطالبات بھی مسترد کردیئے گئے۔ چنانچہ ای وی ایم کے بجائے بیالٹ پیپر پر عام انتخابات منعقد کرانے کی سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر کی گئی کوششیں بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ ہندوستانی مسلمانوں کی بدنصیبی ہیکہ انہیں تیسری بار وزیراعظم مودی کی حکمرانی جھیلنا پڑ رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن 2024ء کے نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا گیا ہے۔ اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں واضح کیا گیا کہ 4 جون کے بعد سے منگل 2 جولائی کو اے پی سی آر رپورٹ کی اجرائی تک ملک بھر میں مخالف مسلم تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ سیول رائٹس کے گروپ نے ہجومی تشدد یا لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد اور حکومتی تائید کے ساتھ مسلم مکانات کے انہدام کے کئی واقعات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ اے پی سی آر شہری حقوق کی وکالت کرنے والا ایسا گروپ ہے جس میں ایڈوکیٹس، جرنلسٹس، ریسرچرس اور والینٹرس شامل ہیں جو ہندوستان میں شہری اور انسانی حقوق کیلئے اخلاص کے ساتھ کام کرتے آئے ہیں۔
مسلمانوں کیخلاف نفرت ، تشدد
اے پی سی آر کی رپورٹ میں انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد گزشتہ ایک ماہ کے اندرون پیش آئے لنچنگ کے 8، ہجومی تشدد کے 6 اور انہدامی کارروائی کے 3 واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ گجرات میں 22 جون کو 23 سالہ سلمان ووہرہ کو کرکٹ میچ کے مشاہدہ کے موقع پر انتہاپسند عناصر نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ 7 جون کو چھتیس گڑھ کے رائے پور میں 3 مسلم نوجوانوں صدام قریشی، چاند میاں خان اور گڈو خان کو ہندو ہجوم نے مویشی منتقل کرنے کے ’جرم‘ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ علیگڑھ میں 18جون کو 35 سالہ اورنگ زیب عرف فرید کو ہندو گروپ نے مار مار کر ہلاک کردیا ہے۔
فرقہ وارانہ جھڑپیں
اے پی سی آر کی رپورٹ میں ایسے کئی واقعات بھی بیان کئے جن میں جھڑپیں پیش آئیں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، بالخصوص 17 جون کو عیدالاضحی کے موقع پر ۔ تلنگانہ کے میدک میں 15 جون کو دائیں بازو سے وابستہ ہجوم نے ایک مدرسہ پر حملہ کردیا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ اوڈیشہ کے بالاسور اور کھوردھا میں ہندوتوا ہجوم نے ذبیحہ کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم برادری کے مکانات میں گھس کر توڑپھوڑ کی جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ جھڑپیں پیش آئیں۔ ہماچل پردیش کے ناہن میں 19 جون کو کپڑوں کے تاجر مسلمان کو ہندوؤں نے لوٹ لیا اور غنڈہ گردی کرتے ہوئے اس کی پوری دکان کو نشانہ بنایا۔ جودھپور میں بھی 22 جون کو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی جس میں کم از کم 16 افراد زخمی ہوئے۔
مکانات کا انہدام
مدھیہ پردیش میں ضلع مانڈلا کے حکام نے مسلمانوں کے کم از کم 11 مکانات منہدم کردیئے۔ بعد میں پولیس نے اس کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ مکانات سرکاری اراضی پر بنائے گئے تھے۔ 14 جون کو مدھیہ پردیش میں ہی ضلع رتلام میں 4 مسلمانوں کے مکانات اس بناء پر منہدم کردیئے گئے کہ ان مسلمانوں نے مویشیوں کے باقیات پھینکے تھے یعنی ان پر مویشیوں کو ذبح کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کارروائی کی گئی۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائی اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے اکبرنگر اور یوپی میں مرادآباد میں بھی کی گئی۔
مسلم املاک کی ضبطی
اترپردیش پولیس نے سلسلہ وار واقعات میں مسلمانوں پر مویشیوں کی اسمگلنگ یا بیف کے فروخت کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی جائیدادیں ضبط کرلی ہیں۔ ضلع پیلی بھیت میں تقریباً 16 لاکھ روپئے مالیتی ایک مکان کو قرق کرلیا گیا جس کے مسلم مالک پر بیف فروخت کرنے کا الزام تھا۔ اسی ضلع میں حکام نے مویشیوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات پر ایک مسلم شخص کی ایک کروڑ روپئے مالیتی جائیداد قرق کرلی۔ اسی طرح یوپی میں ہی ضلع گونڈا میں پولیس نے 5 مسلمانوں پر گاؤکشی اور ان کی تجارت میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کی جائیدادیں ضبط کرلی ہیں۔
ملک کے کئی علاقوں میں اسی طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہوئے۔