سوشیل میڈیا میں وزیر اعظم کا چہرہ بے نقاب، گودی میڈیا کے سہارے لوک سبھا کے باقی تین مراحل میں تائیدحاصل کرنے کی کوشش، شر انگیز بیانات سے لاتعلقی کا اظہار
حیدرآباد۔/15 مئی، ( سیاست نیوز) لوک سبھا چناؤ کے 4 مراحل کی تکمیل کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں سے متعلق اپنے نفرت انگیز اور شر انگیز ریمارکس سے ’ یوٹرن‘ لیتے ہوئے خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چناؤ کے چار مراحل میں اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی ریالیوں میں کھل کر مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ چار مراحل میں رائے دہی کے رجحانات سے بی جے پی مایوس ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نریندر مودی کے بے بنیاد الزامات سے سیکولر رائے دہندوں میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ اب جبکہ تین مراحل کا چناؤ باقی ہے جس میں خود نریندر مودی وارانسی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ مخالف مسلم بیانات پر عوامی ناراضگی دور کرنے کیلئے مودی نے گودی میڈیا کے چینل کا سہارا لیا جس میں خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں پر لگائے گئے الزامات سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ سوشیل میڈیا میں نریندر مودی کے مخالف مسلم بیانات کے ویڈیو کلپس کے ساتھ مودی کی مسلمانوں سے ہمدردی کا ویڈیو منسلک کرتے ہوئے وائرل کیا گیا جس کو لاکھوں افراد نے دیکھا اور نریندر مودی کے دوہرے موقف پر ناراضگی جتائی۔ سوشیل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر سماجی جہدکاروں اور عوام نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے مودی کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ نریندر مودی کے جو ویڈیوز شامل کئے گئے ان میں کرناٹک میں مسلمانوں کو او بی سی میں شامل کرنے کی مخالفت، مسلمانوں کو تحفظات کے حق میں لالو پرساد یادو کے بیان کی مذمت، ملک کے اثاثہ جات ہندوؤں سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کرنے کی بات، مسلمانوں کو زائد بچے پیدا کرنے والے اور درانداز جیسے ریمارکس اور حیدرآباد کی وہ تقریر بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں جب تک زندہ ہوں مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر تحفظات دینے نہیں دوں گا۔ گودی میڈیا کے ایک اینکر نے جب مسلمانوں سے متعلق ریمارکس پر توجہ دلائی تو نریندر مودی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ بچوں کے معاملہ کو مسلمانوں سے جوڑنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے اس مسئلہ پر اپنا سابقہ بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ غریب ہندوؤں میں بھی زائد بچوں کا مسئلہ ہے اور وہ بچوں کو تعلیم نہیں دے پارہے ہیں۔ مودی نے کہا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں ہندو یا مسلمان نہیں کہا ، زائد بچوں سے متعلق ان کے تبصروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جس پر انہیں حیرت ہے۔ مودی نے یہاں تک کہا کہ جس دن وہ ہندو اور مسلمان کی سیاست کریں گے عوامی زندگی میں برقراری کی اہلیت سے محروم ہوجائیں گے۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ کبھی ہندو۔ مسلمان کی سیاست نہیں کریں گے۔ نریندر مودی نے قومی چینل کو انٹرویو میں اپنے تمام متنازعہ اور شرانگیز تبصروں سے دامن جھاڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں۔ مودی نے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر کے اطراف مسلمان بستے تھے اور عید اور تہوار ملکر منائے جاتے تھے۔ عید کے موقع پر اُن کے گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا کیونکہ مسلمان پڑوسی کے گھروں سے کھانا آتا تھا۔ مودی نے کہا کہ وہ ووٹ بینک کی سیاست نہیں کرتے اور ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کی جانب سے نریندر مودی کا مسلمانوں سے متعلق ہمدردی والا ویڈیو وائرل کرتے ہوئے مسلمانوں کی ناراضگی کم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے جواب میں جہدکاروں نے سابقہ بیانات کے ساتھ نیا انٹرویو پیش کرتے ہوئے مودی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ آئندہ تین مراحل کی رائے دہی میں کئی ریاستوں میں مسلم رائے دہندوں کا فیصلہ کن رول ہے اور یہی وجہ ہے کہ خوف کے عالم میں مودی نے نئی چال چلی تاکہ مسلمانوں کو مطمئن کیا جاسکے۔1