مودی کو کون لے ڈوبے گی نااہلی یا عمر

   

سنجے کے جھا
ملک کے سیاسی و عوامی حلقوں میں پچھلے چند ہفتوں سے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس اور نیوز پورٹلس کے ذریعہ بڑی تیزی سے پھیلنے والی ایک خبر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ سوشیل میڈیا اور نیوز پورٹلس پر اس خبر سے متعلق ایک بوگس یا فرضی بحث چھڑی ہوئی ہے اور وہ خبر وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ جاننے کیلئے بڑی دلچسپی پائی جاتی ہے چونکہ مودی اپنی عمر کے 75 سال مکمل کرنے والے ہیں (17 ستمبر 2025ء کو مودی جی اپنی عمر کی 75 بہاریں دیکھ چکے ہوں گے) یہ بحث اس غلط مفروضہ پر مبنی ہے کہ بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کی موزونیت ان کی عمر سے جڑی ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بی جے پی نریندر مودی کیلئے 75 سال کی عمر کو سبکدوشی کا پیمانہ بنادیں گے۔ یہ امید دراصل سنگھ پریوار کی اخلاقیات کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر پیدا ہوئی ہے۔ (سنگھ پریوار اور بی جے پی حلقوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ 75 سال کی عمر میں سبکدوشی کے اصول کا اطلاق مودی جی پر نہیں ہوگا اور کیوں نہیں ہوگا، اس بارے میں سنگھ پریوار اور اس کی قیادت کے ساتھ ساتھ بی جے پی بھی اچھی طرح جانتے ہیں جبکہ سنگھ پریوار اور بی جے پی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جس طرح 75 سال کی عمر کے بعد سرگرم سیاست یا انتخابی سیاست سے سبکدوشی کے اصول کا اطلاق اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور یشونت سنہا پر کیا گیا۔ اسی طرح مودی پر بھی اس کا اطلاق کیا جانا چاہئے) اگرچہ بی جے پی کے اہم ترین اور بزرگ قائدین جیسے ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور یشونت سنہا کو بڑی عمر کے بہانہ سیاسی چوکھٹے سے ڈھکیل باہر کیا گیا لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو انہیں سرگرم سیاست سے دور کرنے کی اہم وجہ مودی۔ امیت شاہ جوڑی سے ان کی عدم مطابقت تھی۔ اس جوڑی کی سوچ و فکر اڈوانی اور گروپ کی سوچ و فکر سے میل نہیں کھاتی۔ اگر بالفرض واقعی مودی کو سبکدوش کروانے کی کوئی منصوبہ بندی ہورہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس، بی جے پی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ مودی اب پارٹی کا مستقبل نہیں ہوسکتا۔ ان کیلئے اس پستی سے واپس آنا تقریباً ناممکن ہے جس میں وہ (مودی) خود کو پاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سنگھ پریوار کیلئے بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کو برقرار رکھنے سے زیادہ طاقت (اقتدار) کو مستحکم کرنا اہم ہوگا اور اس کی دلچسپی اپنی طاقت اپنی ساکھ اور اپنا دبدبہ برقرار رکھنے میں ہوگی اور ہاں اس بات میں کوئی شک و شبہ میں نہیں کہ مودی اپنی مقبولیت (اکثر ان کے حامی انہیں کرشماتی شخصیت قرار دیتے رہے ہیں) اور گرفت کھوچکے ہیں۔ مودی کی گرتی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت 2024ء کے پارلیمانی انتخابی نتائج ہیں۔ مودی کی قیادت میں لڑے گئے ان انتخابات میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے سے قاصر رہی۔ حد تو یہ ہے کہ مودی کا ان کی اپنی پسند کے پارٹی صدر مقرر کرنے میں ناکامی، سنگھ پریوار میں پائی جانے والی اس بے چینی کو ظاہر کرتی ہے جو مودی کی حکومت اور پارٹی تنظیم پر مکمل کنٹرول کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ فی الوقت تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر ایس ایس ،مودی کو اس امر کی اجازت نہیں دینا چاہتی کہ وہ جے پی نڈا جیسے کسی شخص کو پارٹی پر مسلط کرے تاکہ امیت شاہ بالراست طور پر پارٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھیں (جے پی نڈا کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ ظاہری طور پر بی جے پی کے صدر ہیں لیکن ان کا ریموٹ کنٹرول امیت شاہ کے ہاتھوں میں ہے) ہاں! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی میں بھی عمر کے 75 سال مکمل کرنے والے قائدین کو سرگرم سیاست سے سبکدوش کروانے کے اصول پر بحث و مباحث ہورہے ہیں اور یہ ایسا اصول ہے جسے 2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور عہدۂ وزارت ِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد مودی نے خود نافذ کروایا تھا لیکن آج وہی اصول مودی کیلئے خطرہ بن گیا ہے اور محض مودی پر دباؤ ڈالنے کا ایک بہانہ بن چکا ہے، نہ کہ اصول کی پاسداری کا کوئی جذبہ اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ ویسے بھی یہ بحث اس لئے ممکن ہوئی کیونکہ مودی زوال کی طرف گامزن ہوچکے ہیں اور حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آچکے ہیں (آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے 75 سال عمر مکمل کرنے والے لیڈروں کو آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ شاید وہ وزیراعظم مودی کیلئے بھی بالواسطہ تنبیہ تھی) ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ سیاسی فسانہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس فسانہ کو بہت ہی ماہرانہ انداز میں ضبط تحریر میں لایا گیا۔ جلد یا بدیر اس کا خلاصہ ہوجائے گا۔ ایک بات ضرور ہے کہ مودی کا فسانہ توقع کے عین برعکس ایک طویل مدت تک باقی رہا، 11 برسوں سے وہ باقی ہے اور 11 سال کوئی چھوٹی مدت نہیں ہے یہ غیرمعمولی سیاسی مظہر اب ایسے وعدوں جو وفا نہ ہوسکے، چونکا دینے والی دروغ گوئی اور دقیانوسی باالفاظ دیگر باسی خیالات کی خبر بن چکی ہے۔
مودی کی حقیقت اب سامنے آچکی ہے۔ لوگ ان کی حقیقت کے بارے میں جان چکے ہیں۔ ایک ہی طرح کے بیانات اور ایک ہی طرح کی زبان اور ایک ہی طرح کا لب و لہجہ اور ایک ہی طرح کے استعارے، غرض لوگ اُکتا گئے ہیں۔ وہی پرانا طریقہ کار جو بار بار دہرائے گئے اور اسی کے نتیجہ میں وہ پوری طرح اپنی کشش کھوچکے ہیں کیونکہ کوئی بھی چیز بار بار دہرانے سے اپنی کشش اور اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ مثال کے طور پر بیروزگاروں کیلئے روزگار ؍ ملازمتوں کی فراہمی، بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے یعنی مہنگائی پر قابو پانے، بیرونی ممالک میں جمع کردہ بلیک منی (سیاہ دھن) واپس لانے اور خواتین کو محفوظ سماجی ماحول فراہم کرنے جیسے وعدے وفا کرنے میں ناکامی کے تناظر میں دیکھا جائے تو2047ء میں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ہندوستان میں تبدیل کرنے سے متعلق مودی کا وعدہ ایک فریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا کھلے عام غلط استعمال سیاسی انتقامی کارروائیوں کے الزامات کو تقویت پہنچاتا ہے تو دوسری طرف عدلیہ کی افسوسناک حالت ِزار الیکشن کمیشن آف انڈیا اور میڈیا کا رویہ عام آدمی کو جمہوریت کی گرتی ساکھ اور اس کی کمزور ہوتی حالت پر یقین کرنے کیلئے مجبور کرتا ہے اور عوام، مودی اور ان کی حکومت کیا کرچکے ہیں اور کیا کررہے ہیں، اسے اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مودی نے خود اپنا ایک چھوٹا سا گروہ بنالیا جس میں امیت شاہ، اجیت ڈوول، ایس جئے شنکر اور نرملا سیتا رامن شامل ہیں اور اس گروہ پر انحصار ایک مضبوط ٹیم بنانے کی بجائے حکمرانی کیلئے نقصاندہ ثابت ہوئی اور حکمرانی کو ایک طرح سے مفلوج کردیا۔ ایک اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ریاستوں میں بھی انہوں نے مستحکم قیادت کی بجائے غیرمعروف اور اپنے حکم کے مطابق چلنے والے کمزور لوگوں کو آگے لایا جس کے نتیجہ میں بھی پارٹی میں بے چینی پھیل گئی اور تنظیم میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ اس کے باوجود وہ ناراضگی اور اختلافی حقیقت میں پارٹی اور حکومت میں اپنے مخالفین کی آوازوں کو دبانے میں کامیاب رہے۔ وہ اپنے اس بڑے فسانہ کو بھی پھیلانے میں کامیاب رہے کہ وہ دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں اور ان کا شمار بھی عالمی قائدین کی فہرست میں ہوتا ہے۔ اکثر ان کے حامی کہا کرتے تھے کہ بیرون ممالک میں مودی جی کا ڈنکا بچتا ہے ، لیکن مودی جی کا یہ بڑا فسانہ اچانک اس وقت پوری طرح بے نقاب ہوگیا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک مضبوط ، طاقتور اور بااثر رہنما ہونے سے متعلق مودی کی شبیہ کو بری طرح مجروح کرکے رکھ دیا۔ امریکہ میں جب غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ نے کارروائی شروع کی، ہندوستانیوں کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں ڈال کر بڑی ہی بے عزتی کے ساتھ امریکی فوجی طیاروں میں ملک بدر کرکے ہندوستان پہنچایا گیا۔ ہندوستانیوں کے ساتھ اس توہین آمیز رویہ پر مودی جی نے اُف تک نہیں کیا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے ہندوستان کے خلاف محاصل کی جنگ (Tariff War) شروع کی جس طرح اپنے کٹر حریف ملکوں کے خلاف شروع کی تھی۔ مودی نے پہلے ہی چین کے مخالف ہند عزائم اور منصوبوں کو نہیں سمجھا اور پھر غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و جبر کے خلاف کھل کر مذمت کرنے یا بولنے سے انکار کرکے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ کو مزید داغدار کیا۔ یہی نہیں اقوام متحدہ میں اسرائیل ۔ فلسطین جنگ بندی کیلئے قرارداد پیش کی گئی، اس پر ہوئی ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کرکے قومی سطح پر شرمندگی و شرمساری کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن مودی جی نے اپنے ملک میں اس جمہوری عمل یعنی احتجاجی مظاہروں کو سر اُٹھانے نہیں دیا۔ عالمی سطح پر پاکستان کو بے نقاب کرنے سے متعلق مودی حکومت کی کوشش ناکام ہوگئی اور کسی ملک نے ہندوستان کے اس الزام کو تسلیم نہیں کیا کہ پہلگام دہشت گرد حملے میں پاکستان ملوث ہے ، جبکہ ممبئی حملہ کو لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے اپنی جارحانہ سفارتی مہم کے ذریعہ پاکستان کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرکے رکھ دیا تھا۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی انہوں نے کروائی ہے اور مودی کی یہ ہمت نہ ہوسکی کہ ٹرمپ کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیں اور اس طرح 56 اِنچ کا سینے والا سرینڈر ہوگیا۔