مودی کی خارجہ پالیسی اور نمائشی سفارتکاری

   

پون کھیرا
دنیا آج کئی ایک مسائل سے دوچار ہے اور ان میں سے اکثر مسائل انسان کے پیدا کردہ ہیں چنانچہ ایک ایسے دور میں جب عالمی سطح امور، جنگ وجدال ، ماحولیاتی بحران (عالمی حدت کا سنگین مسئلہ) اور طاقت کے بڑی تیزی سے بدلتے توازن سے دوچار ہیں۔ ہندوستان کے پاس اخلاقی وضاحت اور حکمت عملی کے ساتھ دنیا کی قیادت کرنے کا ایک تاریخی موقع ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان نے ایک حیران کن تیسری راہ اپنائی ہے اور اس نے نمائشی سفارت کاری کا طریقہ اپنایا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہمارے ملک کی جو خارجہ پالیسی اپنائی گئی ہے وہ دیکھا جائے تو اصولوں سے زیادہ ڈرامہ بازی اور نمائش پر مبنی دکھائی دیتی ہے ۔ مودی جی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلسل اپنی راہ تبدیل کرتی جارہی ہے اور اس کا جو GPS ہے وہ خود الجھن سے دوچار ہے اور وہ بظاہر راستہ طئے کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن کبھی منزل تک پہنچے گا ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر مودی کی زیر قیادت حکومت کے اس تازہ ترین اقدام کو دیکھئے ۔ جاریہ ماہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی اور اسی قرارداد پر ووٹنگ بھی ہوئی ، اس قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کروائی جائے ، زائد از 149 ملکوں نے قرارداد کی تائید میں ووٹ دیا جبکہ ہندوستان نے خود کو ووٹنگ سے دور رکھا۔ با الفاظ دیگر وہ رائے دہی سے غیر حاضر رہا اور پھر وہی دلیل دی جو اس نے ماضی میں دی تھی لیکن اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس بارے میں کچھ غور نہیں کیا گیا ۔ ایک بات ضرور ہے کہ اس کا اخلاقی اور سیاسی اثر ضرور مرتب ہوگا۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے ایسے وقت جبکہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد پر رائے دہی ہورہی تھی ہندوستان کا غیر حاضر رہنا دراصل ہماری ایک اخلاقی ناکامی تھی۔ کیوں ووٹنگ سے ہندوستان کی غیر حاضری سے دنیا بالخصوص عرب ملکوں کو یہ تاثر گیا کہ ہندوستان جو ہمیشہ انسانی بحران کے دوران انسانیت کے ساتھ کھڑا رہا اب وہ غزہ کے انسانی بحران کے انسداد کیلئے اور اس کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے اس سے دوری کو ترجیح دیتا ہے جو معماران ہند کے اصولوں کے مغائر ہے ۔ واضح رہے کہ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں (جو اس نے امریکہ کی تائید و حمایت سے کئے) 55297 فلسطینی شہید اور کم از کم 128426 زخمی ہوئے ۔ شہداء اور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ 18 مارچ کو جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل نے اپنے حملوں کے ذریعہ 5104 فلسطینیوں کا قتل کیا اور اس کے حملوں میں 16385 فلسطینی زخمی ہوئے۔ اسی طرح بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا کہ جنوری 2025 سے اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ کے 90 فیصد مکانات کو نقصان پہنچا، ایک لاکھ ساٹھ ہزار مکانات مکمل طور پر تباہ کردیئے گئے اور دوسرے 276000 مکانات کو شدید یا جزوی نقصان پہنچا ، اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں قرارداد کے موقع پر ہندوستان کی غیر حاضری یقیناً ہمارے ملک کیلئے ایک سیاسی نقصان ہے کیونکہ ہندوستان تاریخی لحاظ سے فلسطین کے ساتھ انصاف کے کازگا چھین رہا ہے ۔ واضح رہے کہ 1975 ء میں ہندوستان نے فلسطین لبریشین آرگنائزیشن یا PLO کو دارالحکومت نئی دہلی میں اپنا دفتر قائم کرنے کیلئے مدعو کیا اور پھر 5 سال بعد اس دفتر کو سفارتی رتبہ دے دیا گیا ، 1988 میں جب پی ایل او نے مشرقی یروشلم دارالحکومت کے ساتھ آزادانہ ریاست فلسطین کا اعلان کیا ۔ ہندوستان نے فوری مملکت فلسطین کو تسلیم کیا اور جب کبھی یاسر عرفات نے ہندوستان کا دورہ کیا ، ان کا ہمارے ملک میں سربراہ مملکت کے طور پر خیرمقدم کیا گیا ۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے جب 1992 ء میں تل ابیب میں اپنا سفارتی مشن کھولا تب اس نے غزہ میں دفتر نمائندہ قائم کیا جو بعد میں رملہ منتقل کردیا گیا کیونکہ فلسطینی تحریک حماس (جس نے غزہ کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا) اور پی ایل او کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ آپ کو بتادیں کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے کے دس سالہ دور اقتدار میں فلسطینی اتھاریٹی کے سربراہ محمود عباس نے جن کا مغربی کنارہ پر کنٹرول ہے ، ہندوستان کا چار مرتبہ یعنی سال 2005 ، 2008 ، 2010 اور 2012 میں دورہ کیا اور سال 2011 میں فلسطین کی UNESCO کی مکمل رکنیت کے حصول میں ہندوستان نے نہ صرف اس کی مدد کی بلکہ اس کے حق میں ووٹ بھی دیا اور پھر ایک سال بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں جب ایک قرارداد پیش کی گئی جس کے ذریعہ فلسطین کو ایک غیر رکن مبصر ریاست (ووٹ ڈالنے کے حق کے بغیر) بنایا گیا اس قرارداد کے پیش کرنے میں ہندوستان شریک اسپانسر تھا۔ آپ کو یہ بھی جان کر حیرت ہوگی کہ سال 2014 ء میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری حکومت کا موقف ریاستی اخلاقی جرأت اور اصولی قیادت کے فقدان کی روشن اور واضح مثال ہے ۔ اب پہلے سے زیادہ واضح ہوچکا ہے کہ حکومت کی دو رخی خارجہ پالیسی اصولوںکی بجائے سہولت اور قربت پر مبنی ہے ۔ اس ضمن میں اسرائیل کمپنی کے جاسوسی سافٹ ویر پگاس کی حکومت کی جانب سے خریدی بدترین مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے ۔ پیگاس جاسوسی سافٹ ویر کے ذریعہ حکومت نے خود اپنے وزراء ، اپوزیشن قائدین ، سیاسی حکمت سازوں ، صحافیوں، سماجی ، حقوق انسانی کے جہد کاروں ، اقلیتی قائدین ، سپریم کورٹ ججس ، مذہبی رہنماؤں اور الیکشن کمشنرس کے ساتھ ساتھ سنٹرل بیورو آف انویسٹگیشن (CBI) کے سربراہوں کی ماورائے قانون نگرانی کی ۔ ان کی جاسوسی کی گئی البتہ یہ طرز عمل صرف غزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک وسیع پیٹرن کا حصہ ہے۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں پر ہوئی رائے دہی میں حصہ نہیں لیا جن میں سال 2022 میں روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی کم کرنے اور امن کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اس موقع پر بھی ہندوستان غیر حاضر رہا۔ اکتوبر 2023 اور جون 2025 میں غزہ جنگ بندی پر زور دینے والی قراردادوں پر ہوئی رائے دہی سے بھی ہندوستان نے خود کو دور رکھا اور اس نے یہ موقف ایک ایسے وقت اختیار کیا جب ساری دنیا اس جنگ سے پیدا شدہ بحران کو ختم کرنے جنگ بندی کی پرزور انداز میں تائید و حمایت کر رہی تھی ۔ اپنی غیر حا ضری کے بارے میں مودی حکومت نے جو دلیل پیش کی ، وہ بالکلیہ طور پر رسمی نوعیت کی تھی لیکن اس کے نتائج اخلاقی پستی کی شکل میں منظر عام پر آئے۔ مودی کی اس دوغلی پالیسی کا مسئلہ یہ ہے کہ (چاہے وہ غزہ ہو یا اس سے آگے کی بات) وہ عالمی سطح پر ہندوستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ ایک طرف ہم جنوبی دنیا کی آواز بننے کے خواہاں ہیں اور جب ہماری آواز کی شدید ضرورت ہوتی ہے تب ہم خاموش ہوجاتے ہیں ۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہماری اسٹریٹیجک خود مختاری بھی مجروح ہوچکی ہے ۔ اگرچہ نریندر مودی کے پرنٹ کیا ہوا سوٹ زیب تن کرلینے سربراہان مملکت سے مصافحہ کرنے انہیں گلے لگانے سے ہندوستان کی شبیہہ بہتر نہیں بنتی بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کو مستحکم بنانے سے عالمی سطح پر ہندوستان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم کے بیرونی دوروں میں انہیں صرف میزبانوں کو گلے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔