سیاست فیچر
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے باوجود مزید 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کردیا جس سے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ان غیور ملکوں میں ہلچل مچ گئی جو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں خاص طورپر اقتصادی اور خارجی پالیسیوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے اپنی من مانی قبول نہ کرنے والے ملکوں کو سزا دینے کیلئے ٹیرف کو ایک ہتھیار بنالیا ہے ۔ ٹرمپ کے ان عجیب و غریب اقدامات پر جہاں کولمبیا اور برازیل جیسے ملکوں نے ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دیا وہیں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی اس وقت بھی خاموش رہے جب ٹرمپ اُن کے بالکل قریب بیٹھے ہندوستان کو ٹیرف کا سب سے بڑا استحصال کرنے والا قرار دے رہے تھے ۔ شائد مودی جی کی اس خاموشی کا اثر ہے کہ آج ٹرمپ نہ صرف ہندوستان کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیئے جارہے ہیں بلکہ اپنی دھمکیوں کو عملی شکل بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی مودی تھے اور وہی ٹرمپ تھے جو ایک دوسرے کو ڈیئر فرینڈ کہا کرتے تھے ، یہاں تک کہ مودی جی نے امریکہ پہنچ کر رپبلکن پارٹی کے ایک کارکن کی طرح اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگایا تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ اُس وقت وہ بھول گئے تھے کہ وہ اس کرہ ارض کے ایک عظیم ملک ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ چہارشنبہ کو امریکہ نے ہندوستان سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا ، اس طرح اب ہندوستان پر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ مجموعی ٹیرف 50 فیصد ہوگیا ۔ ٹرمپ نے یہ انتہائی اقدام روسی تیل کی خریدی پر کیا ۔ راہول گاندھی جیسے اپوزیشن قائدین نے پرزور انداز میں مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا ، اُن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مصنوعات پر دوگنا ٹیرف عائد کرنے سے متعلق ٹرمپ کا فیصلہ مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی ناکام سفارتکاری کی بدترین مثال ہے ۔
کانگریس ترجمان جئے رام رمیش کا سوشل میڈیا پر کہنا تھا کہ اگرچہ ٹرمپ کا ٹیرف اور جرمانہ عائد کرنا ناقابل قبول ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کے فیصلے نریندر مودی کی شخصی نوعیت اور سرخیاں بٹورنے والی اور گلے ملنے ( بغلگیر ہونے ) سے متعلق سفارتکاری کی شرمناک ناکامی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ جئے رام رمیش نے اس ضمن میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے جرأت مندانہ فیصلوں کو یاد کیا ۔ خاص طورپر امریکہ نے 1970ء کے دہے میں جب ہندوستان پر دباؤ ڈالا اس دباؤ کے خلاف اندرا گاندھی نے سخت موقف اختیار کیا ۔ جبکہ اندرا گاندھی کو بدنام کرنے اُن کی حکومت کے غیرمعمولی فیصلوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی بجائے مودی کو اپنی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کو دور کرنا چاہئے اور اُنھیں اندرا گاندھی کے جراتمندی اور بلند حوصلوں سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے ۔
مودی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اندراگاندھی کس طرح جراتمندی کے ساتھ امریکہ کے خلاف کھڑی ہوئی تھیں۔ جئے رام رمیش نے مودی اور ٹرمپ کی دوستی پر بھی سوال اُٹھائے اور پوچھا کہ آخر وہ دوستی کہاں گئی ؟ انھوں نے سوشل میڈیا پر یہ بھی یاد دلایا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا اور ستمبر 2019 ء میں ہاوڈی مودی ایونٹ ( یہ پروگرام ہیوسٹن میں منعقد کیا گیا تھا ) میں شرکت کی ۔ اس میں صدر ٹرمپ بھی موجودتھے اور مودی نے اُس وقت تمام روایتوں کو توڑتے ہوئے اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگایا جواب میں فبروری 2020 ء میں صدر ٹرمپ کی میزبانی کیلئے نریندر مودی نے احمدآباد میں نمستے ٹرمپ پروگرام کا انعقاد عمل میں لایا ۔
2025 ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی پر جن وزرائے اعظم اور سربراہانِ مملکت نے اُنھیں مبارکباد دی اُن میں مودی سرفہرست تھے اور یہ سمجھا جارہا تھا کہ مودی کو اُن کے قریبی دوست ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں خصوصی طورپر مدعو کیاجائے گا اور ( گودی میڈیا کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین نے اس سلسلہ میں بلند بانگ دعوے کئے ) لیکن پتہ نہیں ٹرمپ کو کیا ہوگیا تھا انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو تو مدعو نہیں کیا لیکن وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کو مدعو کرکے پہلی صف میں جگہ دی ، تب بھی مودی حکومت اور اُن کے بھگت فخریہ انداز میں کہنے لگے تھے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ کو پہلی صف کی نشست فراہم کی گئی جو ہندوستان کیلئے ایک اعزاز ہے ۔
مودی جی نے ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے ایلون مسک کو مدعو کیا یہاں تک کہ 14 فبروری 2025 ء کو الجبرا سے متعلق اپنی قابلیت بتانے کیلئے ٹرمپ سے کہا کہ MAGA + MIGA = MEGA افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ زائد از 33 مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی لیکن مودی جی نے خاموشی اختیار کی ، اس کا جواب نہیں دیا ۔ جب امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو تباہ کیا مودی نے احتجاج نہیں کیا ، ٹرمپ نے امریکہ کو ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسکو سے دستبردار کروایا اور پیرس ماحولیاتی معاہدہ سے دور کیا مودی کی زیرقیادت ہندوستانی حکومت خاموش رہی اور اب بھی مودی جی کی خاموشی کا سلسلہ جاری ہے ۔
دوسری جانب لوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کا پرزور انداز میں کہنا تھا کہ ٹرمپ کا ہندوستان کے خلاف ٹیرف میں اضافہ کرنا ’’اقتصادی بلیک میل ‘‘ کرنا ہے اور ہندوستان کو غیرمنصفانہ تجارتی معاہدہ قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی ایک کھلی کوشش ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ مسٹر مودی کو اپنی کمزوری کو ہندوستانی عوام کے مفادات پر حاوی ہونے نہیں دیا جانا چاہئے۔ راہول گاندھی نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ چونکہ امریکہ میں اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات جاری ہیں ایسے میں مودی امریکہ اور ٹرمپ کو کوئی سخت جواب دینے سے قاصر ہیں۔