مودی کی دوسری میعاد جمہوریت کیلئے نازک دور

   

رام پنیانی
لوک سبھا چناؤ 2019ء کے نتائج جب سامنے آئے تو برسراقتدار بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوگیا جبکہ بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب اور نشستوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ یہ نتائج بی جے پی قائدین کی پیش قیاسی کے مطابق ہیں، بالخصوص امیت شاہ جنھوں نے نتائج سے قبل اعلان کیا تھا کہ بی جے پی تین سو کا نشانہ عبور کرے گی۔ جہاں بی جے پی خوشی سے پھولے نہ سمارہی ہے اور اس کے حامی خوشی سے پاگل ہوئے جارہے ہیں، وہیں اپوزیشن میں بہت سارے گوشے اور وہ جو جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کو قائم رکھنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، وہ کم سے کم اتنا کہا جاسکتا ہے کہ حیرت و استعجاب کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ بعض کا احساس ہے کہ یہ سب ای وی ایم مشینوں میں الٹ پھیر کا نتیجہ ہے، تو بعض دیگر نے ہماری توجہ جمہوری اور تکثیری اقدار کے تشویشناک مستقبل پر مبذول کرائی ہے۔
انتخابی مہم میں متضاد موضوعات کے پروپگنڈے کا غلبہ رہا۔ بی جے پی بلکہ مودی نے 2014ء کی مہم کے انداز کو ترک کرتے ہوئے جس میں انھوں نے کئی وعدے کئے تھے، اس مرتبہ قومی سلامتی، قوم پرستی اور فرقہ واریت پر زیادہ توجہ دی۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ جس نے سخت ملٹری زون میں حملے کو روکنے میں حکومت کی فاش ناکامی، سی آر پی ایف قافلے کو فضائی راستے منتقل کرنے میں حکومت کی کوتاہی اور انھیں سڑک کے ذریعے سفر کرنے کی اجازت دینا، یہ سب بے نقاب کردیا، لیکن اسے سکیورٹی کے محاذ پر حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر باور کرایا گیا۔ دشمن ملک پاکستان کے خلاف انتقام کیلئے استعمال کی گئی زبان اور اس بارے میں پیدا کردہ جنونی کیفیت سے مودی نے بی جے پی کیلئے زبردست کام کیا۔ بے روزگار نوجوانوں کا غم و غصہ، زرعی شعبے میں کسانوں کی ابتر زبوں حالی ’گھر میں گھس کے ماریں گے‘ کے شور میں کہیں گم ہوگئے۔ اخلاقی معیار سے گھٹ کر مودی نے راجیو گاندھی کو جو دہشت گردی کا شکار ہوئے اور شہید کہے جاسکتے ہیں، بھرشٹاچاری نمبر ایک قرار دیا۔ وقفے وقفے سے اقلیتوں کو چالاکی سے نشانہ بناتے ہوئے اکثریتی برادری کو راغب کیا گیا۔ اس کی نظیراس وقت سامنے آئی جب مودی نے کہا کہ راہول گاندھی نے حلقہ ویاناڈ سے چناؤ لڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ کیونکہ وہاں اقلیتیں اکثریت میں ہیں۔ اکثریتی برادری کو خوش کرنے کی خاطر بی جے پی نے دہشت گردی کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال لوک سبھا نشست کیلئے امیدوار بنایا۔
کانگریس، پلوامہ حملہ کے معاملے میں جو قوم پرستانہ جنون پیدا کیا گیا، اس کا خاطرخواہ جواب نہیں دے سکی۔ اس کا مثبت کام یہ رہا کہ وہ بہتر انتخابی منشور پیش کرنے میں کامیاب رہی اور ’ہم کام کریں گے‘ کے زیرعنوان منشور میں ’اب ہوگا نیائے‘ کے نعرے کے ساتھ ’نیائے‘ اسکیم متعارف کرائی۔ اس اسکیم کے تحت غریب ترین خاندانوں کو ماہانہ 6,000 روپئے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے دینے کی پیشکش کی گئی۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے پیار و محبت کی بات کی جو بی جے پی حکمرانی کے گزشتہ پانچ برسوں میں پیدا شدہ تفرقہ پسند سیاست کی شدت کو زائل کرنے کا اشارہ رہا۔ نوکریوں پیدا کرنے کی اسکیمات، زرعی پریشانی دور کرنے کیلئے اقدامات کا اس کتابچہ میں خصوصیت سے ذکر کیا گیا اور کانگریس پارٹی کے مقاصد بیان کئے گئے۔
منفی پہلو یہ رہا کہ کانگریس بعض مقامات پر مناسب اتحاد کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ٹاملناڈو اور کرناٹک میں اس نے عمدگی سے اتحاد کیا، لیکن وہ مہاگٹھ بندھن میں جگہ نہیں پاسکی، جو یو پی میں ایس پی اور بی ایس پی نے تشکیل دیا۔ وہ دہلی، پنجاب، ہریانہ اور مہاراشٹرا میں کوئی اتحاد نہیں کرسکی۔ اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔
بی جے پی کا میڈیا کے بڑے گوشے پر گزشتہ کئی سال سے کنٹرول نہایت واضح ہے۔ اس کے پیسے کی طاقت 2014ء کے انتخابات میں بھی اس کی بڑی طاقتوں میں سے تھی۔ بی جے پی حکمرانی میں متعارف کردہ الکٹورل بانڈز کے ذریعے بڑے پیمانے پر کارپوریٹ فنڈنگ بی جے پی کی جھولی میں آگئی۔ الیکشن کمیشن کا شروع سے جانبدارانہ رہا، مودی۔ شاہ کی انتخابی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کردیا، جبکہ اپوزیشن قائدین کو نوٹسیں جاری کرتا رہا۔ کمیشن کے کام کاج کے خلاف الیکشن کمشنروں میں سے ایک نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ جمہوری طریقوں میں ان تمام تر دھاندلیوں کے ساتھ مودی اقتدار پر واپس ہوگئے۔ ہندوستان کا مستقبل میں کیا ہونے والا ہے؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک ہندوستانی دستور کے اقدار کی سنگین خلاف ورزی سے دوچار ہوا۔ مذہبی اقلیتوں کو عملاً گھٹا کر دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا گیا، گائے کے نام پر ہجومی تشدد (لنچنگ) اور عیسائیوں کے مذہبی اجتماعات پر حملوں کو کیا کہیں گے؟ سی بی آئی جیسے سرکاری اداروں میں یکسر پھوٹ پڑگئی۔ یونیورسٹیوں کو ایسے وائس چانسلروں اور فیکلٹی سے بھرا جارہا ہے جن کی واحد اہلیت ہندوتوا قوم پرستی سے نظریاتی وابستگی ہے۔ اقتدار ایک شخص کے ہاتھوں میں مرکوز ہوگیا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت کے اقدامات کی اچھی طرح عکاسی ہوئی جب ممتاز شخصیتوں نے اپنے ایوارڈز واپس کردیئے، روہت ویمولا کا ادارہ جاتی قتل کیا گیا، اونا میں دلتوں کو کوڑے مارے گئے۔
لہٰذا، ہندوستانی قوم کا اب کیا مستقبل اور حشر ہونے والا ہے؟ اضافی طاقت کے ساتھ مودی کی واپسی ہوسکتا ہے ان اعمال میں شدت پیدا کردے جو گزشتہ پانچ سال کے دوران کئے گئے۔ مذہبی اقلیتوں کو جس قسم کے ڈر و خوف سے گزرنا پڑا وہ عدیم النظیر ہے۔
ہندوتوا ایجنڈا کیا ہے؟ رام مندر، آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور یونیفارم سیول کوڈ دوبارہ ابھر آسکتے ہیں۔ گائے کے نام پر تشدد میں شدت پہلے ہی تیزی سے ابھرتا رجحان بن چکا ہے جو خطرناک شکل اختیار کررہا ہے۔ حالانکہ بیروزگاری تکلیف دہ حد تک بڑھ چکی ہے، گزشتہ پانچ سال کے دوران مارے گئے سیکوریٹی پرسونل کی تعداد کافی زیادہ ہے حالانکہ ’گھر میں گھس کے ماریں گے‘ کا انتباہ دیا جارہا ہے۔ گوڈسے کی جس طرح تعریف ہونے لگی ہے وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے جس سے ہمارے سماج کے کئی گوشوں میں ہندوتوا قوم پرستی میں اضافے کا اشارہ ملتا ہے۔ سماج میں نفرت کا دور دَورہ، مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت ملک میں بھائی چارہ کے معنی و مفہوم کو نقصان پہنچارہی ہے۔ لہٰذا، کیا کرنا چاہئے؟ آمر حکمران مودی تو جمہوری اداروں کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، لیکن بڑی جانفشانی سے پروان چڑھائے گئے اداروں کا تحفظ ہنگامی ضرورت ہے۔ حق زندگی، روزگار، امکنہ، غذا کیلئے عوامی تحریکات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
اقلیتوں کیلئے اثباتی عمل کی دستوری ضمانت کو پہلے ہی پامال کیا جارہا ہے، ہمیں ہندوستان کے کلیدی اقدار اور اس کے اصل مطمح نظر کے تحفظ اور اسے فروغ دینے کیلئے متحدہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مجاہدین آزادی جنھوں نے تنوع کا احترام کرتے ہوئے تکثیری اقدار کو سربلند رکھنے کیلئے سعی کی، اُن کے خوابوں کو بکھرنے سے بچانے اور ان کی تکمیل کیلئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ نفرت کے خطرات کی نشاندہی کرنا ہوگا اور بھائی چارہ اور ہندوستانی قوم کے طور پر یکتائی کو فروغ دینے کیلئے سماجی پروگراموں کی تشکیل وقت کی ضرورت ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں جو ہندوستانی دستور کے اقدار، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے اقدار کو برقرار رکھنے کی خواہاں ہیں، انھیں یکجا ہونا پڑے گا اور سماجی تحریکات کی آوازوں کو آگے بڑھاتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کے انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کا مطالبہ کرنا ہوگا۔
ram.puniyani@gmail.com