ڈی کے سنگھ
جاپان کے ہیرو شیما میں ہفتہ کو کواڈمیٹنگ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنے کی پیشکش کی۔ ممکنہ طور پر 2023 میں ہمارا ملک کئی ایک اہم اور بڑی عالمی کانفرنسوں کی میزبانی کرے گا جس میں P5، شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا سربراہ اجلاس بھی شامل ہے جن کا جولائی میں انعقاد عمل میں آئے گا جبکہ G20 اجلاس کا ستمبرمیں اہتمام کیا جائے گا۔ آپ کو بتادیں کہ2024 میں کواڈ سربراہ اجلاس چونکہ انتخابی سال میں منعقد ہورہا ہے اس لئے وہ اجلاس عالمی سطح پر ہندوستان کے قد کی تصدیق کرے گا۔ ذرا سوچیئے کہ امریکی صدر، جاپانی اور آسٹریلیائی وزرائے اعظم کواڈ میٹنگ کیلئے اندرون ایک سال ہندوستان واپس آرہے ہیں۔
G20 سربراہ اجلاس میں 2023 کی میزبانی کیلئے مودی حکومت نے سخت محنت کی۔ ہندوستان کو G20 گروپ کی صدارت سنبھالنی تھی اور 2021 میں سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنی تھی چونکہ ہندوستان اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں G20 گروپ کی صدارت کرنا چاہتا تھا اس لئے اس نے اٹلی کے ساتھ گروپ کی صدارت کا تبادلہ کیا۔ بعد میں ہندوستان نے ایک بار پھر انڈونیشیا کے ساتھ G20 کی میزبانی کا تبادلہ کیا۔ جہاں تک کواڈ سربراہ اجلاس کا سوال ہے آسٹریلیا کو رواں سال اس کی میزبانی کرنی تھی لیکن اسے جاپان میں ہونے والے G-7 سربراہی اجلاس کے موقع پر منعقد کرنا پڑا۔ ساتھ ہی امریکی صدر جوبائیڈن کو قرضوں سے متعلق مذاکرات میں شرکت کیلئے امریکہ واپس ہونا پڑا۔ ہوسکتا ہے کہ کواڈ سربراہ اجلاس 2024 کا مقام آسٹریلیا منتقل کیا جائے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان میں اس سربراہ اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی۔ انہوں نے میزبانی کی پیشکش یوں ہی نہیں کی بلکہ بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں اس میزبانی کا زبردست فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔ یعنی وہ کواڈ سربراہ اجلاس کو عام انتخابات میں کامیابی کیلئے استعمال کرسکتی ہے اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرسکتی ہے کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان وشوا گرو یا عالمی لیڈر بن گیا ہے۔ یہ چیزیں عالمی سطح پر ہندوستان کے موقف ، اس کے قد اور وزیر اعظم نریندر مودی پر یکساں لاگو ہوتی ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے کیسے کامیابی حاصل کی اور کس طرح نریندر مودی کو عہدہ وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا گیا۔ اگردیکھا جائے تو 2014 کے لوک سبھا انتخابات ہندو ہردے سمراٹ سے متعلق تھے اور ایک کمزور وزیر اعظم کی جگہ ایک ہندو ہردے سمراٹ کو عہدہ ٔوزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے اور ملک بھر میں گجرات کے ترقیاتی ماڈل کو متعارف کروانا تھا۔
دوسری طرف 2019 کے عام انتخابات ایک مضبوط اور قوت فیصلہ سے لیس وزیر اعظم کے بارے میں تھا، ایسا وزیر اعظم جو پاکستان کے اندر حملہ کرنے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا ، ساتھ ہی ایک رحم دل اور عوامی بہبود کا خیال رکھنے والے ایسے وزیر اعظم سے متعلق تھا جو غریب عوام کو مفت گیس سلینڈر دینے والا ہے، دیہاتوں کو بجلی فراہم کرنے والا اور غریب عوام کو بینک اکاؤنٹس میں رقم کی راست منتقلی کروانے والا ہے، ان کے لئے بیت الخلاء تعمیر کروانے اور ان کی بہترصحت کو یقینی بنانے والا ہے۔ اب بات کرتے ہیں 2024 کے مجوزہ لوک سبھا انتخابات کی، ان انتخابات میں بی جے پی ایک ایسے وزیر اعظم کیلئے ووٹ مانگے گی جس نے ہندوستان کو وشوا گروہا عالمی رہنما بنایا ہے اور دنیا کے طاقتور ملکوں کے سربراہ اس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر ٹہرنے کیلئے ہزاروں میل کا فاصلہ ، فضائی سفر کے ذریعہ طئے کرکے آتے ہیں( یہ اور بات ہے کہ یہ سب بی جے پی قائدین کے دعوے ہیں ) اس کے برعکس سوچئے جب بی جے پی اس امر کا حوالہ دے گی کہ کس طرح اپوزیشن جماعتوں کے قائدین جمہوریت کی بحالی کیلئے بیرونی مداخلت کرتے ہوئے بیرون ملک ہندوستان کو بدنام کررہے ہیں جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عالمی سطح پر ہندوستان کے قد کو بلند و بالا کیا ہے اس طرح بی جے پی ہندوستانیوں سے قومی فخر کے نام پر ووٹ مانگے گی۔ ہوسکتا ہے کہ رائے دہندے بہت زیادہ کمرشیل بھی ہوجائیں لیکن بی جے پی مودی کو ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرے گی جو ریوڈی ( مراعات و سہولیات ) کلچر کے خلاف بولتا ہے، اس کے خلاف کام کرتا ہے ( حقیقت یہ ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں مودی جی کی بی جے پی نے عوام کیلئے ریوڈی کا اعلان کیا ہے۔) اب بات کرتے ہیں وشوا گرو اور اپوزیشن کے موقف کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس ہندوستان کووشوا گرو بنانے کا کوئی وعدہ یا دعویٰ ہے۔ اپوزیشن کے سامنے یہ سوال ہے کہ اب مودی کے مقابلہ میں کون ہے؟۔ تاہم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فی الوقت اپوزیشن کو ایک ایسے چہرہ کی ضرورت ہے جو ایک عوامی منتخبہ اور مستحکم حکومت کو بیدخل کرے۔ اس سلسلہ میں آپ جئے پرکاش نارائن ( جے پی ) 1977، وی پی سنگھ 1989 اور مودی 2014 کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ 2004 میں اٹل بہاری واجپائی حکومت کو بیدخل کرنے اپوزیشن کا کوئی مقبول چہرہ نہیں تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ واجپائی حکومت نے درخشاں ہندوستان مہم شروع کرکے خود اپنی قبر آپ کھودلی۔ سونیا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس نے 145 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو بی جے پی سے صرف 7 نشستیں زیادہ تھیں۔
اگر مودی کے مقابل اپوزیشن چہرہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب بھی مودی کے مقابل راہول گاندھی ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن اب خود اپوزیشن میں راہول گاندھی کی بجائے کسی دوسرے چہرہ کو سامنے لانے کی باتیں ہورہی ہیں، ایسے میں پھر یہی سوال اُٹھتا ہے کہ اپوزیشن کیمپ میں عہدۂ وزارتِ عظمیٰ کے امکانی امیدوار کون ہیں،چاہے ان کا سیاسی درجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ۔ جہاں تک مودی کے حلیفوں کا سوال ہے ان میں چیف منسٹر اور اوڈیشہ نوین پٹنائک، چیف منسٹر آندھرا پردیش جگن موہن ریڈی، آندھرا پردیش میں قائد اپوزیشن این چندرا بابو نائیڈو اور سابق چیف منسٹر مایاوتی کے نام لئے جاتے ہیں۔ کانگریس کا جہاں تک سوال ہے وہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ کانگریس نے 20 مئی کو کرناٹک میں چیف منسٹر سدارامیا کی تقریب حلف برداری میں انہیں مدعو کرنے سے گریز کیا۔ بہرحال ان دونوں ( عام آدمی پارٹی ) اور بیجو جنتا دل زیادہ سے زیادہ نشستیں بھی حاصل کرتے ہیں تو اس کا زیادہ اثر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو اگرچہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے سابق چیف منسٹر ہیں اور لوک سبھا میں یہ ریاست 80 ارکان پارلیمنٹ کو روانہ کرتی ہے تاحال وہ اس مقام پر نہیں پہنچے کہ اپنے اثرات مرتب کرسکیں، انہیں عہدۂ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر تاملناڈو ایم کے اسٹالن اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کوشش وہ سماجی انصاف پلیٹ فارم کی شکل میں کررہے ہیں۔ کم از کم 2024 کے عام انتخابات میں اسٹالن کو عہدۂ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہیں۔ عہدۂ وزارتِ عظمیٰ کے سنجیدہ امیدواروں کا جہاں تک سوال ہے این سی پی لیڈر شرد پوار، چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی اور چیف منسٹر بہار نتیش کمار کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ ان تمام میں اس باوقار عہدہ کیلئے شرد پوار طاقتور امیدوار ہوسکتے ہیں ۔ وہ ریاست مہاراشٹرا سے آتے ہیں جو لوک سبھا میں 48 ارکان روانہ کرتی ہے، ان کا اپنا ایک سیاسی مقام ہے اور وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کیلئے دو رکاوٹیں ہیں وہ 2024 میں 84 سال کے ہوجائیں گے اور ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ایسے میں وہ قومی سطح پر مہم نہیں چلاسکتے۔ مہاراشٹرا کے باہر ان کی مقبولیت پر سوالیہ نشان اُٹھتے ہیں، ان سب میں نتیش کمار کو برتری حاصل ہے، ان کا صاف ستھرا امیج ہے اور موروثی سیاست سے بھی دور ہیں ، ان کو امیدوار بنانے سے نہ صرف بہار بلکہ بہار کے باہر بھی او بی سیز کے ووٹ حاصل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ بہار سے لوک سبھا کیلئے 40 ارکان پارلیمان کو روانہ کرتے ہیں اور راہول گاندھی بھی ان کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں، ان کی عمر 72 سال ہے ۔ اپوزیشن کیلئے آخری امکان صدر کانگریس ملکارجن کھرگے ہیں ‘ بابو جگجیون رام کے بعد وہ عہدۂ وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دعویدار ہوسکتے ہیں۔ پرینکا گاندھی کو بھی عہدۂ وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا جاسکتا ہے۔