روش کمار
آج کل گجرات میں وزیراعظم نریندر مودی کے پروگرام میں دو کروڑ روپئے کے سموسہ کھانے اور چائے پینے کے چرچے ہیں۔ ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ گجرات مودی کی آبائی ریاست ہے اور وہاں وزیراعظم کا ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں لوگ 2 کروڑ روپئے کے چائے سموسہ ہضم کر گئے۔ عام آدمی پارٹی نے یہ الزام عائد کیا ہے تو ہم نے چیاٹ جی پی ٹی سے پوچھا اگر دس روپئے میں ایک سموسہ آتا ہے تو دو کرور روپئے میں کتنے سموسے آئیں گے ۔ جواب ملا 20 لاکھ سموسے ، کیا گجرات میں ’’جن جاتیہ گورو ابھیان‘‘ کے تحت ا لگ الگ پروگرامس ہوئے اور اس میں لوگوں نے دو کروڑ روپیوں کے چائے اور سموسے کھالئے یا صرف وزیراعظم مودی کی ایک ریالی سننے آئے لوگوں نے 20 لاکھ سموسے چٹ کرلئے ہوں گے ۔ کیا وزیراعظم مودی کا خطاب اتنا بورنگ رہا ہوگا کہ لوگ اکتاہٹ منانے کیلئے لاکھوں سموسے کھالئے یا خطاب اتنا مزیدار رہا ہوگا کہ سنتے سنتے لاکھوں سموسے کھا بھی گئے ۔ عام آدمی پارٹی نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وزیراعظم مودی کے پروگرامس میں سموسے اور چائے پر دو کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی بات سمجھانے کیلئے صرف سموسے کا حساب نکالا مگر معاملہ چائے اور سموسہ کا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آرہا ہے کہ چائے اور سموسے پر دو کروڑ روپئے سے زیادہ بھی خرچ ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ریالی میں کتنے وی آئی پی نے شرکت کی ہوگی ، مان لیتے ہیں 500 وی آئی پی آئے ہوں گے ، ہم نے چیاٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ 20 لاکھ سموسے اگر 500 لوگ کھا جائیں تو ایک آدمی کتنے سموسے کھائے گا ؟ چیاٹ جی پی ٹی نے کہا کہ ایک آدمی 4000 سموسے کھائے گا ۔ ایسا تو ہوہی نہیں سکتا ۔ کوئی بھی یہ سن کر گھبرا جائے گا۔ اتنا کوئی کھائے گا تو کئی ماہ تک بیت الخلاء سے باہر نہیں نکل پائے گا بلکہ مرجائے ۔ تب ہی ہمیں شک ہورہا ہے کہ 2 کروڑ روپئے چائے سموسہ پر خرچ نہیں ہوسکتے اور صرف وی آئی پی کیلئے نہیں ہوسکتا لیکن عام آدمی پارٹی کے ترجمان انوراگ ڈھانڈا نے تو یہی کہا ہے ۔ انہوں نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس میں کچھ یوں کہا ’’دو کروڑ روپئے چائے اور سموسے وی آئی پی لوگ ان پروگرامس میں چٹ کر گئے ۔ سات کروڑ روپئے لوگوں کو جمع کرنے یعنی بسوں کا انتظام کرنے کیلئے اس پروگرام میں خرچ کئے گئے ۔ دو کروڑ روپئے ٹائلٹس اور صاف صفائی کیلئے اس پروگرام میں خرچ کردیئے گئے ۔ عام آدمی پا رٹی نے یہ جو معلومات دیئے ہیں وہ آر ٹی آئی کی بنیاد پر ہیں، ویسے بھی ڈھانڈا نے کہا کہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے نے ایوان میں یہ سوال پوچھا اس سے بھی معلومات حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی پارٹی کے ا یم ایل اے اور قبائلی سماج سے آنے والے چیتر وساواجی نے جب اس کے بارے میں آر ٹی آئی کے تحت سوالات داخل کئے اور ایوان میں دریافت کیا تو ان کو جو جواب ملا وہ بہت حیران کردینے والا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دفتر کی جانب سے فوری اس کی مذمت آنی چاہئے ۔ اگر دو کروڑ روپیہ سموسے اور چائے پر خرچ ہوا ہے تو بیت الخلاء اور صفائی پر دو کروڑ روپئے کا خرچ میاچ کرجاتا ہے ۔ دو کروڑ روپئے کا سموسہ کھایا اور دو کروڑ روپئے بیت الخلاؤں پر خرچ ہوا۔ عام آدمی پارٹی نے ایک پوسٹر بھی بنایا کہ فقیری کا بل محتلف معاملات میں اتنا اتنا ہے مثال کے طور پر 7 کروڑ روپئے کا خیمہ بنا، 5 کر وڑ کا اسٹیج ، 7 کروڑ روپئے بسوں کے انتظام اور لوگوں کو جمع کرنے پر خرچ ہوگئے ۔ سال ختم ہورہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو کم از کم اس الزام کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اپنے جلسوں کا خرچ 50 کروڑ روپئے سے بڑھاکر 100 کروڑ روپئے کردینا چاہئے کیونکہ 100 کروڑ روپئے بھی خرچ کریں تو بھی گودی میڈیا گجرات جاکر ان حلوائیوں کا پتہ نہیں لگائے گا جن کے یہاں سے لاکھوں سموسے بنوائے گئے ، خریدے گئے ، الگ الگ ٹینٹ والوں سے بات کر کے ریٹ کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کرے گا اور حساب نہیں لگائے گا کہ 7 کروڑ کا خیمہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ 10 یا 20 لاکھ سموسے چھاننے میں کتنے حلوائی لگے اور کتنے حلوائیوں نے سپلائی کی ہوگی ۔ کوئی راستہ ہوگا جہاں سے سینکڑوں لوگ سموسے بنانے میں لگے ہوں گے ۔ یہ سوچتے سوچتے دماغ چکرانے لگا کہ وزیراعظم کے پروگرام سے پہلے ٹرک کے ٹرک آلو آئے ہوں گے۔ آلوؤں کی یوریوں (تھیلوں) کو اتار گیا ہوگا ۔ آلو ابالا گیا ہوگا ، اس کے چھلکے نکالے گئے ہوں گے اور پھر اس میں مصالحہ ڈالا گیا ہوگا ، ٹینکر میں بھر کر تیل لائے گئے ہوں گے ۔ سموسہ تلا جارہا ہوگا اور پھر پیاکٹ میں رکھا جارہا ہوگا ۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کو سننے سے پہلے یا سننے کے بعد لوگوں نے سموسہ کھایا ہوگا ۔ جب اس کے کیٹررس کو دو کروڑ روپئے سے زائد کا کنٹراکٹ دیا گیا ہے ، کم سے کم وہی اپنا موقف رکھے کہ اتنے کا سموسہ کہاں بنا کیسے بنا۔ عام آدمی پارٹی کے ترجمان کے مطابق قبائلی سماج کے معاشرہ کیلئے جو فنڈ حکومت کے کھاتہ میں ہوتا ہے ، اس میں سے 50 کروڑ روپئے وزیراعظم نریندر مودی جی اور ان سے جڑے ہوئے مختلف پروگراموں میں وی آئی پی کو سہولتیں فراہم کرنے میں خرچ کردیا گیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی جی نے کئی پروگرامس میں حصہ لیا جس میں جن جاتی گورو دیوس کے ساتھ کئی اور پروگرامس شامل تھے ۔ اب چلتے ہیں راجستھان اور ارا ولی جنگلات کی طرف ، راجستھان کو ترچھا کاٹنے والی اراولی کہا جاتا ہے ۔ انوپم مشرا اراولی کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں جو اراولی راجستھان کو اس طرح ترچھا کاٹتی ہے کہ اس کے علاقہ میں راجستھان میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے ۔ اس اراولی کے کاٹے جانے یعنی صفائے کا خطرہ ہے Save Aravali اور Aravali is Safe انگریزی میں نعرے چل رہے ہیں جبکہ اس سے متاثر اور اس کے لئے لڑ نے والے لوگ اپنی بولیوں سے بندھے ہوئے ہیں ۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ا پنی زبان میں ماحولیات کی تکنیکی الفاظ کی تشریح ممکن نہیں ۔ اوپم مشرا ہوتے تو کہتے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو کسی بھی زبان میں ماحولیات کو نہیں سمجھتا ہے تو ایک ایسی زبان گھڑدیتا ہے جسے آپ ٹکنیکل زبان کہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کو اس کے فیصلہ تک پہنچانے والی ماہرین کی کمیٹی نے پہاڑ کی تعریف اور اس کی بلندی طئے کی ہے لیکن ضرورت ہے کہ آپ اپنی زبان میں ترچھا کاٹنے والی اراولی کو سمجھیں جب تک آپ اراولی کو سمجھیں گے نہیں اس کے بارے میں اس کا دکھ درد کہہ نہیں پائیں گے اور کہنا نہیں آئے گا تو لڑتا بھی دکھاوا بن کر رہ جائے گا ۔ انوپم نے اراولی کے بارے میں جو کچھ لکھا اگر آپ اس بارے میں جان جائیں گے تو یہ ماحولیات کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے بھی بہتر ہوگا ۔ ابتداء میں اراولی کی غیر قانونی کانکنی سے دولت مند بنا مافیا ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اب تک شریف ہوچکے ہوں گے۔ بلیک منی وائیٹ ہوچکی ہوگی اور سیاست سے لے کر معاشرہ کا باوقار و با احترام حصہ بن گئے ہوں گے ۔ ا یسا نہیں ہے کہ غیر قانونی کانکنی سے اراولی میں کوئی کمی رہ گئی ہے لیکن شریف مافیاؤں کو قانون کا سہارا چاہئے تاکہ کٹائی میں تیزی آسکے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے ملک کے فطری حسن (قدرتی وسائل) کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ انوپم مشرا نے 1995 میں ایک کتاب لکھی ’’ راجستھان کی رجت بوندیں‘‘ بہت خوبصورت کتاب ہے ، اس کتاب کو سپریم کورٹ کی ماہرین کمیٹی اور ججس کو بھی پڑھنی چاہئے۔ میں اس کتاب سے اراولی کے بارے میں انوپم مشرا کے خیالات بتا رہا ہوں۔ آپ کو بادلوں ، ریت کے ٹیلوں ، رسم و رواج کے بارے میں بھی پتہ چلے گا ، اس کتاب کو پڑھیں گے اور سنیں گے تو آپ کو کہنا آجائے گا ۔ لڑنے سے پہلے لڑائی کس چیز کیلئے ہے ۔ اس کے لئے کہنا اور سمجھانا آجائے گا۔ اراولی کے بارے میں کیا کہنا ہے، کیسے کہنا ہے ، اس کی مشق شروع کردیجئے ۔ کم سے کم اتنا تو پتہ چل جائے گا کہ جس بادل کو آپ صرف بادل کہتے آئے ہیں ، مقامی بولی میں اس بادل کے کتنے کتنے خوبصورت نام ہیں ۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ جون کے ماہ میں آپ جس گرمی سے پریشان رہتے ہیں ، اس ماہ کو راجستھان میں کوئی کوستا نہیں ، ایسا کیوں لکھا ہے انوپم مشرا نے ہم وہ بھی آپ کو بتائیں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس سارے حصہ کو چار حصوں میں باٹتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا جو حصہ ہے اس کا ایک مغربی کونا ایک اودے پور کے پاس ہے ، دوسرا کونا یا کنارا پنجاب چھوتا ہے اور دکھشنی کونا گجرات اور دوسری طرف پورا کا پورا حصہ پاکستان کے ساتھ جڑا ہے ۔ اس کا ہر حصہ اپنی ایک خصوصیات رکھتا ہے ۔ ان ہی حصوں میں ریت کے بڑ ے بڑے ٹیلے ہیں ، جس پر مافیا کی نظر ہوتی ہے ۔ ریت کے ان ٹیلوں کو دھورے کہا جاتا ہے ۔ گرمی کے دنوں میں چلنے والی تیز آندھیوں میں یہ ٹیلے پر لگاکر ادھر سے ادھر اڑچکے ہیں تب کئی بار ریل کی پٹریاں چھوٹی بڑی سڑکیں اور قومی شاہراہیں بھی ان کے پنجے دب جاتے ہیں ۔ اس حصہ میں بارش سب سے کم ہوتی ہے ۔ ان حصوں میں کھارے پانی کی جھیلیں ہیں اور ان میں باقاعدہ نمک کی کھیتی ہوتی ہے ۔ جھیلوں کے پاس میلوں دور تک زمین میں نمک ہوتا ہے لیکن حکومت اس اراولی کے صفائے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
