روش کمار
ہندوستان اور امریکہ کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہمارے ملک پر 25 فیصد ٹیرف عائد کئے اور پھر روس سے تیل خریدنے کے خلاف انتباہ دیا اور بعدمیں 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کردیا۔ اس طرح امریکہ نے ہندوستانی مصنوعات پر 25 نہیں بلکہ 50 فیصد ٹیرف عائد کرکے یہ بتادیا کہ ہم کسی کے دوست نہیں ہوتے، ہمیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ کسی کو مائی ڈیئر فرینڈ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم اسے ہر قسم کی مراعات دیں اور رعایتوں سے نوازیں۔ بہرحال ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ نے ہندوستان پر جو اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کیا اس پر 27 اگست کی صبح 9.30 بجے سے عمل آوری شروع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل 7 اگست کو 25 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا تھا۔ اس بار جو نوٹیفائی کیا گیا وہ جرمانہ ہے۔ روس سے تیل امپورٹ کرنے کے باعث بطور جرمانہ یہ ٹیرف ٹرمپ انتظامیہ نے عائد کیا ہے۔ ٹرمپ ہندوستان پر جرمانہ عائد کرچکے ہیں اور ان کے دوست وزیراعظم نریندر مودی ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ نہیں کہہ پارہے ہیں۔ اپنی ڈگری دکھانا نہیں چاہتے کوئی بات نہیں، پریس کانفرنس نہیں کرتے اس پر بھی کوئی بات نہیں لیکن ٹرمپ کو سرخ آنکھیں کیوں نہیں دکھارہے ہیں۔ موقر انگریزی روزنامہ دی ہندو نے لکھا ہے کہ 25 فیصد اضافی ٹیرف نوٹیفائی کیا گیا اور ہندوستان کی طرف سے کوئی بیان نہیں دیا گیا کہ اس کا سامنا کیسے کیا جائے گا۔ اب تو ٹرمپ نے وزیراعظم نریندر مودی کا نام لے کر کہہ دیا ہے کہ انھیں دھمکی دی تھی کہ 24 گھنٹے کے اندر جنگ روک دینے کی اور وزیراعظم مودی نے 5 گھنٹے میں ہی جنگ روک دی۔ اگر ٹرمپ کے پاس وزیراعظم نریندر مودی سے بات چیت کی کال ریکارڈنگ ہے تو دنیا کے سامنے دکھادیں۔ اس طرح کا چیلنج ٹرمپ کو نہیں دیا جارہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ٹرمپ نے پرزور انداز میں کہا جس کا ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے، کہاکہ مودی نے 5 گھنٹوں میں جنگ روک دی جبکہ جنگ روکنے کے لئے 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی تھی یعنی ان کا مذاق اُڑارہے ہیں۔ یہ بھی مذاق اُڑارہے ہیں کہ 7 لڑاکا طیارے گرے اور ان کی تعداد کو لے کر صحیح رپورٹ بھی نہیں ہوئی۔ یہ حالت ہوگئی ہے انڈیا کی! کیا انڈیا جیسے بڑے ملک اور بڑی جمہوریت کو امریکہ کے صدر فون کرکے دھمکی دے سکتے ہیں کہ جنگ روک دو اور وزیراعظم مودی 5 گھنٹے میں جنگ روک دیں گے۔ بہار میں ووٹ ادھیکار یاترا سے خطاب کرتے ہوئے لوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے کچھ یوں کہا ’’ٹرمپ نے آج کہاکہ جب ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہورہی تھی میں نے فون اُٹھایا اور نریندر مودی سے کہاکہ سن یہ جو تو کررہا ہے اس کو 24 گھنٹے کے اندر بند کر اور نریندر مودی نے 24 گھنٹے نہیں بلکہ 5 گھنٹے میں جنگ روک دی، بھائیو بہنوں میڈیا آپ کو اس بارے میں نہیں بتائے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوچکے ہیں تو اِسے ٹھیک کرنے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے، ٹرمپ سے سیدھے بات کرنے کا طریقہ ہوسکتا ہے یا چلو گجرات وہاں پر سودیشی پر خطاب کیا جائے گا کیا اس سے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ آپ نے خبریں نہیں دیکھی کہ ٹرمپ کے ٹیرف سے آئیل سیکٹر سے لے کر جواہرات اور See Foods سے جڑے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوسکتے ہیں۔ چیمبر آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نے وزیراعظم مودی کو مکتوب لکھا ہے کہ امریکی ٹیرف انڈیا کے کاروبار کو تباہ کردے گا اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے لئے یہ خطرہ بن سکتا ہے۔ پارچہ جات سے لے کر چرم، جواہرات، فارما، کمیکل، سی فوڈ اور الیکٹرانکس اور دوسرے شعبوں پر منفی اور تباہ کن اثر پڑے گا۔ اتنے لوگوں پر تباہی آنے والی ہے اور وزیراعظم مودی دکانداروں سے سودیشی کا بورڈ لگارہے ہیں۔ گودی میڈیا ٹیرف لگانے کے فوائد بتارہا ہے اور ایسی خبریں بھی خود ہی دکھارہا ہے کہ ٹیرف کی وجہ سے فیاکٹریاں بند ہونے لگی ہیں، طلب گھٹنے سے پیداوار کم ہونے لگی ہے یعنی نوکریوں پر خطرات منڈلانے لگے ہیں 50 فیصد ٹیرف کے دائرہ میں امریکہ کو کیا جانے والا انڈیا کا 47 ارب ڈالرس کی برآمدات متاثر ہوسکتی ہے اور اس کی اصل وجہ ڈونالڈ ٹرمپ ہیں اور ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہے لیکن مودی کے خطاب میں ٹرمپ اور ٹیرف عائد ہیں۔ ہمارے ان چھوٹی چھوٹی کوششوں سے یہ ’’اتسو انڈیا کی ترقی کے اتسو بنیں گے‘‘۔ خود وزیراعظم مودی ٹرمپ کا نام لے کر نہیں کہہ سکتے لیکن دکانداروں کو آگے آنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ بورڈ لگاؤ کہ ہم غیر ملکی مال فروخت نہیں کریں گے۔ کیا واقعی حکومت ہند ودیشی مال فروخت کرنے کے خلاف کوئی تحریک شروع کرنا چاہتی ہے۔ اگر بجرنگ دل سے لے کر سودیشی جاگرن منچ نے اسی طرح سے سمجھ لیا تو غیر ملکی سامان کے شورومس کا کیا ہوگا؟ امیزان کا کیا ہوگا؟ کیا اسے بھی صرف ملکی ساز و سامان فروخت کرنے ہوں گے؟ سب سے بڑا دکاندار تو وہی ہوگیا ہے۔ وزیراعظم مودی چاہتے ہیں کہ دکاندار فخر کے ساتھ بورڈ لگائیں کہ میرے یہاں ملکی سامان فروخت ہوتا ہے خود کیوں نہیں بتارہے ہیں کہ ان کے شخصی استعمال کی چیزوں میں کیا کیا غیر ملکی یا امپورٹیڈ ہیں جس کا استعمال انھوں نے بند کردیا۔ وزیراعظم مودی کے دفتر اور قیامگاہ کے باہر سب سے پہلے بورڈ لگنا چاہئے کہ یہاں صرف سودیشی اشیاء کا استعمال ہوتا ہے ودیشی مال اب نہیں خریدا جاتا۔ اب ہم بوئنگ کمپنی کے طیارہ سے سفر نہیں کرتے۔ شیوراج سنگھ چوہان کو فون کرکے ایک اور پشپک طیارہ بنانے کی پھر سے فیاکٹری شروع کردیتے، پتہ لگاتے کہ رائٹ برادرس سے پہلے جو پشپک طیارہ بنا تھا وہ اب کہاں ہے جب ہنومان جی پہلے خلائی مسافر ہوسکتے ہیں تو ایک خانگی خلائی سفر میں شکلا کے ٹکٹ کیلئے حکومت ہند نے 500 کروڑ روپئے کیوں دیئے۔ وزیراعظم کے استعمال کی چیزوں کو لے کر خبریں کئی بار وائرل ہوجاتی ہیں کہ ان کی عینک ودیشی ہے تو گھڑی بھی بیرون ملک تیار کردہ ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے؟ وزیراعظم مودی نے کس برانڈ کے جوتے پہنے ہیں اور ان کا صوفہ کہاں سے آیا ہے لیکن وزیراعظم مودی ہی اب بورڈ لگاکر بتادیں کہ ان کی گھڑی سودیشی ہے، ان کا چشمہ سودیشی ہے، اپنی کاروں کے قافلہ میں چلنے والی کاروں کو ہٹادیں جو غیر ملکی ہیں۔ ابھی تک انھوں نے سودیشی کاروں کو کیوں نہیں فروغ دیا۔ خود مکتفی ہندوستان مہم مودی نے کوویڈ کے دوران شروع کی، کم سے کم اسی وقت سے اس کی مثال بن جاتے۔ ہندوستانی کاروں کا استعمال کرتے۔