موسم ِ سرما :غنیمت بھی نصیحت بھی|| از قلم: مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

   

موسم ِ سرما :غنیمت بھی نصیحت بھی|| از قلم: مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

 

        موسم ِ سرماکی آمد ہوچکی ہے،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں گرم کپڑوں میں لپٹے رہنے پر مجبورکردیتی ہیں،ہواؤں کے خنک جھونکوں سے طبیعت مچل جاتی ہے ،حرارت کی طلب بڑھ جاتی ہے ،ٹھنڈک کو دورکرنے کے لئے مختلف قسم کے لباس اور بہت ساری چیزیں استعمال کرنے میں لگ جاتے ہیں، موسم گرما کا ہو یا برسات کا ہرموسم کا لطف ومزہ الگ ہوتاہے۔ کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالی ہے ،وہ بہت خوب جانتا ہے کہ انسانوں کو گرم ہواؤں کی بھی ضرورت ہے،اور بارش سے جل تھل ہونے کی بھی،اسی طرح موسم ِ سرما کے ذریعہ کائنات میں تبدیلی کا واقع ہونا بھی بہت اہم ہے۔چاند ،سورج ،ستارے ،جھاڑ، پہاڑ، ہوا، پانی سب اس کے حکم کے ماتحت ہیں، جب اس کا اشارہ ہوتا ہے کائنات کے نظام میں تبدیلی شروع ہوجاتی ہے، جب کہ سورج وہی ہے جسے روز طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن وہ چاہتا ہے تو اسی سورج کی شعاعوں سے زمین کو گرم کردیتاہے، انسانوں کو دھوپ کی شدت سے دوچار کر دیتا ہے، اور جب چاہے تو پھر اسی آسمان زمین کے درمیان ماحول اور موسم کو نہایت سرد اور ٹھنڈا کردیتا ہے، خداکی قدرت، اس کی عظیم بادشاہت کے یہ انوکھے مناظر اور نظام ِ کائنات کی حیرت انگیز تبدیلیاں انسانوں کو بے شمار عبرت و نصیحت کا پیغام دیتی ہیں اور اپنے عظیم خالق ومالک کا پتہ بتاتی ہیں کہ اس کائنات کا چلانے والارب کتنا عظیم ہے۔

              موسموں کی تبدیلی اور حرارت وبرودت کی کیفیات انسانوں کے لئے نصیحت کا پیغام ہیں۔ عموما اس جانب توجہ نہیں دی جاتی کہ اللہ تعالی نے کائنات کے نظام کے ذریعہ انسانوں کو کیا سکھایا اور کیا سمجھایا ہے، عقل مند ودانا وہ ہے جو کائنات میں پیش آنے والی ہرتبدیلی سے سبق لیں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والا بنیں۔ دنیا میں سردی یا گرمی کی شدت اور سختی جو پیش آتی ہے اس کا سبب نبی کریم ﷺ نے جہنم کے سانس لینے اور اس کے جوش کو قرار دیا ۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جب سخت گرمی ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ۔کیوں کہ گرمی کی سختی دوزخ کی تیزی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔( پھر فرمایا کہ)دوزخ نے اپنے رب کی بارگاہ میں شکایت کی کہ ( میری تیزی بہت بڑھ گئی ہے حتی کہ ) میرے کچھ حصے دوسرے حصوں کو کھائے جارہے ہیں ،( لہذا مجھے اجازت دی جائے کہ کسی طرح اپنی گرمی ہلکی کروں ) اللہ تعالی نے اس کو دومرتبہ سانس لینے کی جازت دی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں۔ لہذا تم جو گرمی محسوس کرتے ہودوزخ کی لوکا اثر ہے ۔( بخاری:حدیث نمبر؛۵۰۶) حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنھیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس و ادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ،انبیاء کرام ؑ کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں، اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ: گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے، یہ اسی قبیل کی چیز ہے، گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا، لیکن عالم باطن اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے، اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء کرام ؑ ہی کے ذریعہ معلوم ہوسکتے ہیں۔( معارف الحدیث :۳/۱۲۸)

           جس طرح دنیا میں بہت زیادہ دھوپ اور گرمی انسانوں کے لئے مصیبت بن جاتی ہے، اسی طرح موسم سرما کا اعتدال سے نکل جانا بھی سخت اذیت کا باعث ہوتا ہے،گرمی اور سردی یہ دو مظاہر ہیں کہ ان کے ذریعہ بھی اللہ تعالی انسانوں کو عذاب دیتا ہے، عموما گرمیوں میں تو اس کا احساس ہوتا ہے ، لو کی تپش اور دھوپ کی سختی سے لوگوں کو جہنم کی ہولناکی یاد آجاتی ہے لیکن سردیوں کی بہت زیادہ شدت ذہن ودماغ کو اس طرف نہیں لے جاتی۔ جب کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جنتیوں کو جنت میں ملنے والے سکون وراحت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: متکئین فیھا علی الارائک لایرون فیھا شمسا ولا زمھریا۔(الدھر:۱۳) ’’وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے، جہاں نہ وہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے، اور نہ کڑاکے کی سردی۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ جنت میں جنتیوں کو سردی اور گرمی کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا اور وہاں کا موسم نہایت خوشگوار اور متعدل ہوگا۔

        زمھریر سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ ’’بیشک جہنم کا ایک عذاب ایسا ہوگاجس میں ٹھنڈک ہوگی اور وہ ’’زمہریر‘‘ہے جس میں (سردی کی شدت کی وجہ سے ) ہڈیوں سے گوشت گرجائے گا، یہاں تک کہ لوگ جہنم کی گرمی کی فریاد کریں گے۔حضرت مجاہدؒ سے منقول ہیں کہ ـ: زمہریر وہ(شدید ٹھنڈک کا) عذاب ہے جس کی ٹھنڈک کو چکھنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہ ہوگی۔(صفۃ النار:۱۰۰،باب الوان العذاب؛دارابن حزم بیروت) غرض یہ کہ جس طرح ہولناک آگ جہنم کا ایک عذاب ہے، اسی طرح خطرناک سردی بھی عذاب ہی کی ایک قسم ہے، جہنمیوں کو مختلف قسم کے عذابات دئیے جائیں گے۔ دنیا کی شدید سردی انسان کو جہنم کی سردی کی یاد دلانی چاہیے، اور اس کے نتیجہ میں جس طرح وہ ظاہر بدن کو سردی کی شدت سے بچانے کے لئے اسباب جمع کرتا ہے اور کوشش وفکر میں لگا رہتاہے، اسی طرح اس کو چاہیے کہ آخرت کے سخت ٹھنڈے عذاب سے بھی بچ جائے اور اس کے لئے وہ اعمال کرنے کی فکر کریں جس سے اُس عذاب سے بچاجاسکتا ہے۔

          سردیوں کا موسم جہاں انسانوں کی ضرورت ہے وہیں اس کے اللہ تعالی نے فائدے بھی رکھے ہیں ،سردیوں میں دن چھوٹا ہوتا ہے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں، جہاں بہت سے کام کرنے میں رات کا بڑا حصہ مددگار ہوتا ہے وہیں اللہ تعالی کی عبادت، قرآن کریم کی تلاوت، دعا ومناجات کے لئے کافی وقت انسان کو میسر آجاتا ہے، قدر کرنے والے اس کی بہت قدر کرتے ہیں اور سردیوں کی راتوں میں خوب عبادتوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ سے منقول ہے :الشتاء ربیع المومن قصرنھارہ فصام وطال لیلہ فقام۔(شعب الایمان للبیہقی:۳۹۳۶) سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے، چناں چہ اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور راتیں طویل ہوتی ہیں تو وہ قیام کرتا ہے۔حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ،الشتاء غنیمۃ العابدین۔سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کے لئے غنیمت (لوٹنے کا موسم )ہے۔(سردی کاموسم:۲۰)

          سردیوں میں عبادت یا اعمال انجام دینے کے لئے وضو کرنا پڑتا ہے، موسم کی ٹھنڈک کی وجہ سے پانی بھی نہایت سرد ہوجاتا ہے، ایسے میں جب بندہ ٔ مومن وضو کرتا ہے تو نبی کریمﷺ نے اس کے لئے دوہرے اجرکی بشارت دی ہے۔ آپﷺ کا ارشادہے: جس نے سخت سردی میں کامل وضو(یعنی سنت کے مطابق) کیا اس کے لئے اجر کے دو حصے ہوتے ہیں۔ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

تین چیزیں خطاؤں اور گناہوں کو مٹادیتی ہیں اور درجات بلند کرتی ہیں(۱ )سخت سردی کی ناگواری میں کامل وضو کرنا۔(۲)مسجد میں دور سے چل کر آنا۔(۳)ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔(مسلم :۲۵۳)

       سردی کے موسم میں رات کے وقت ہر کوئی چاہے گا کہ گرم لحاف میں لپٹا ہوا ہو، بہترین گرم سوئیٹر اس کے پاس موجود ہو، جب کسی کام اور ضرورت سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو تمام تر حفاظتی واحتیاطی تدابیر کے ساتھ باہر نکلیں، لیکن اس دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں کہ جن کے پاس سرچھپانے چھت نہیں، آرام کرنے نرم وگرم بستر نہیں ، سردی کی سخت راتوں میں ضرورت مند ومجبور سڑکوں کے کنارے،فٹ پاتھ پر،بس اسٹینڈ پر اکڑے ہوئے سورہے ہوں گے، جن کے پاس نہ گرم کپڑے ہیں اور نہ ہی گرم بستر ،ایسے میں جن کو اللہ تعالی نے دیا ہے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سردی سخت راتوں میں ان ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھیں ،ان کی سردی کو بھی دور کرنے کی کچھ کوشش کریں، اگر کچھ نیا نہیں دے سکتے تو کم ازکم پرانا وغیر استعمال ہی صحیح ان کو پہنا دیں تاکہ وہ بھی سردی کی سختیوں سے بچ سکیں۔ سردی کا موسم انسانی ہمدردی کے جذبہ کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:تم زمین والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔(ابوداؤد:۴۲۹۲)آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ :جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالی اس کو جنت میں سبز جوڑے عطا کرے گا ،جو مسلمان کسی مسلمان کو بھو ک کی حالت میں کھانا کھلائے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں پھل اور میوے کھلائے گا،اور جوکوئی کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے اللہ تعالی اس کو نہایت نفیس شراب ِ طہور پلائے گا جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔(ترمذی :۲۳۸۶)

        لکھا ہے کہ ترکی اور بلغار میں آج بھی سردیاں آتے ہی خلافت ِ عثمانیہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اہل خیر گرم کپڑے درختوں پر لٹادیتے ہیں جن پر ایک پرچی لکھی ہوتی ہے کہ’’جو مستحق ہے وہ پہن لے‘‘۔

علامہ ابن جوزی ؒ نے اپنی کتاب ’’صفۃ الصفوہ‘‘میں مشہو ر تابعی حضرت صفوان بن سُلیم ؒ کاایک واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سردی کے موسم میں ایک رات مسجد سے باہر نکلے ،دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اور اس کے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے کپڑے تک نہیں ہیں،چناں چہ انہوں نے اپنی قمیص اتارکر اس شخص کو پہنادی ،اسی رات بلاد شام میں کسی نے خواب دیکھا کہ حضرت صفوان بن سلیم ؒ صرف اسی قمیص کے صدقہ کرنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے ۔وہ شخص اسی وقت مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ آکر حضرت صفوان بن سلیم کا پتہ پوچھا اور اپنا خواب بیان کیا۔(صفۃ الصفوۃ :۱/۳۸۵ بحوالہ سردی کا موسم :۱۸ازمحمد سلمان غفرلہ)جس طرح ٹھنڈے موسم میں گرم چیزیں ہمیں پسند ہوتی ہیں اسی طرح ضرور ت مندوں کے لئے اس کا اہتمام کرنے کی فکر اور کوشش کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے اور موسم سرما کا ایک سبق ہے۔

         موسم سرما میں چوں کہ دن کا وقت مختصر ہوجاتا ہے،اوررات کا وقت کافی طویل ،اس لئے اوقات کی قدر دانی کرنا چاہیے ،لمبی لمبی راتوں کو فضول گپ شپ ،لایعنی مشغلوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے ،اللہ تعالی نے زندگی عطا کی ہے تو اسے کارآمد بنانے کی فکر ہونی چاہیے، رات کے اوقات میں بہت سارے کام لکھنے،پڑھنے اور اعمال وعبادت انجام دینے کے ہوسکتے ہیں تو اس کا کچھ نظام بناکر استعمال کرنا چاہیے تا کہ اتنی قیمتی راتیں بے کار نہ جائیں۔کیا پتہ کہ زندگی میں آئندہ یہ ماہ وسال نصیب ہوں گے یا نہیں؟ حضرت حسن بصری ؒ ایک مرتبہ ایک جنازے میں شریک ہوئے ،تو آپ نے فرمایا:اللہ تعالی رحم فرمائے ،اس شخص پر جو آج جیسے دن (موت کے دن ) کے لئے تیاری کرے۔آج توتم لوگ وہ سب کچھ کرسکتے ہوجو تمہارے یہ بھائی نہیں کرسکتے،جوقبروں میں پہنچ چکے ہیں۔اپنی صحت اور فرصت کو غنیمت سمجھواور نیک عمل کرلو،اس سے پہلے کہ گھبراہٹ اور حساب کتاب کا دن آپہنچے۔‘‘

دین اوردنیا کی کامیابی اور بلند مقاصد کے حصول کے لئے وقت کا صحیح استعمال لازم ہے، سردیوں میں اگر دن کے اوقات زیادہ کام نہیں ہوپائے تو رات کا حصہ استعمال میں آسکتا ہے۔

         اللہ تعالی سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے تاکہ کوئی موسم اور کوئی دن ورات ،ماہ وسال ہمارے لئے نہ دنیوی مشقت کا ذریعہ ہواور نہ ہی آخرت کے عذاب کا سبب ۔اللہ تعالی تکلیفوں کو دور کرے اور راحتوں سے ہمکنار کرے اور امتحان وآزمائش سے محفوظ رہیں۔

 

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ