موسیٰ ندی پراجکٹ کے متاثرین کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی تجویز

,

   

رکن قانون ساز کونسل جناب عامر علی خاں کی تجویز پر حکومت کا مثبت ردعمل، روزگار و سیاحت کے فروغ کے پراجکٹ کی تیاری

حیدرآباد۔17۔ڈسمبر(سیاست نیوز) رکن قانون ساز کونسل جناب عامر علی خان نے آج تلنگانہ قانون ساز کونسل میں وقفہ سوالات کے دوران موسیٰ ندی کے احیاء کے سلسلہ میں کئے گئے سوال پر ہوئے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے موسیٰ ندی کے احیاء کے ساتھ ساتھ اس پراجکٹ کے ذریعہ بے روزگاری کے خاتمہ اور سیاحت کے فروغ کے اقدامات کئے جانے چاہئے تاکہ موسیٰ ندی پراجکٹ کے متاثرین کو اس ندی سے متصل ترقی دیئے جانے والے کمرشیل حصہ میں تجارت کے مواقع حاصل ہوسکیں۔ جناب عامر علی خان کی اس تجویز کے جواب میں چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کی جانب سے تلنگانہ قانون ساز کونسل میں جواب دے رہے ریاستی وزیر صنعت و انفارمیشن ٹکنالوجی مسٹر ڈی سریدھر بابو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح عامر علی خان نے تجویز پیش کی ہے اسی کے مطابق ریاستی حکومت کی جانب سے روزگار اور سیاحت کے فروغ کی منصوبہ بندی کے ساتھ پراجکٹ تیار کیا جا رہاہے۔ جناب عامر علی خان نے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں سیاحت کے فروغ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اور بیرونی سیاحوں میں فروغ پارہے ’لیک ٹورازم‘ کے طور پر اس پراجکٹ کو ترقی دینے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس تاریخی ندی کے تحفظ اور اس کی ترقی کے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں لیکن متاثرین کی بازآبادکاریاور انہیں روزگار سے مربوط کرنے کے اقدامات پر زور دیا۔ مسٹر ڈی سریدھر بابو نے تلنگانہ قانون ساز کونسل میں ارکان قانون ساز کونسل مسٹر ایس راجو‘ قائد اپوزیشن مسٹر مدھو سدن چاری ‘ مسٹر ٹی جیون ریڈی کے علاوہ جناب عامر علی خان کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس پراجکٹ کام کے آغاز کے بعد سے اب تک 181 مکانات کو منہدم کیا گیا ہے اور وہ جگہ حاصل کی گئی ہے ۔ انہو ںنے بتایا کہ جن مکانات کو منہدم کرتے ہوئے حکومت نے جگہ حاصل کی ہے وہ تمام رضاکارانہ طور پر اپنی جائیداد حوالہ کرچکے ہیں اور حکومت نے ان کی بازآبادکاری کے لئے 309 ڈبل بیڈ روم مکانات میں انہیں منتقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے انسانی بنیادوں پر 172 افراد کو 2لاکھ روپئے جاری کے اعتبار سے جملہ 3.44کروڑ روپئے کی اجرائی عمل میں لائی گئی ہے جس میں 1.40لاکھ سبسیڈی اور 60ہزار روپئے 0% سود پر قرض کی اجرائی عمل میں لائی گئی ہے۔انہو ںنے بتایا کہ موسیٰ ندی کے احیاء کے سلسلہ میں تفصیلی پراجکٹ رپورٹ کی تیاری ابھی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ ریاستی وزیر مسٹر ڈی سریدھر بابو نے بتایا کہ موسیٰ ندی کا بفر زون 30تا50 میٹر ہے اور تلنگانہ ہائی کورٹ کے علاوہ سٹی کالج موسیٰ ندی کے بفر زون میں شامل نہیں ہیں۔ موسیٰ ندی کے احیاء کے سلسلہ میں ریاستی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے سلسلہ میں کئے گئے اس استفسار کے دوران رکن قانون ساز کونسل مسٹر ایس راجو نے کہا کہ چیف منسٹر مسٹر اے ریونت ریڈی موسیٰ ندی کے احیاء کے پراجکٹ کے متعلق عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ مسٹر ڈی سریدھر بابو نے کہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس پراجکٹ پر عمل آوری کے سلسلہ میں اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن چیف منسٹر کے 1لاکھ50 ہزار کروڑ کے پراجکٹ کے طور پر موسیٰ ندی پراجکٹ کو غلط لیا جا رہاہے جبکہ چیف منسٹر نے شہر حیدرآباد کی ترقی کے لئے شروع کئے جانے والے متعدد پراجکٹس کے لئے درکار جملہ رقم کا تذکرہ کیا ہے۔ مسٹر ڈی سریدھر بابو نے بتایا کہ ریاستی حکومت کے فیصلہ کے بعد موسیٰ ندی کے طاس میں موجود خاندانوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور رضاکارانہ طور پر جو خاندان آگے آئے ہیں انہیں منتقل کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ 331 طلبہ کو جو ندی میں رہتے ہوئے اسکول جا رہے تھے انہیں جہاں منتقل کیا گیا ہے وہاں قریب میں موجود آنگن واڑی اسکولوں میں داخلہ کروایا جاچکا ہے اور وہ اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔3