موقوفہ جائیدادوں پر حکومت کی بُری نظر

   

شراوستی داس گپتا
اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جمعرات (8 اگست) کو لوک سبھا میں وقف ایکٹ ترمیمی بل 2024 پیش کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اس بل کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ اپوزیشن نے اسے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا ایک غیر آئینی بل قرار دیا، جس کے بعد یہ بل لوک سبھا میں پھنس گیا اور اسے جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل بھی یا کئی جس میں لوک سبھا کے 21 اور راجیہ سبھا کے دس ارکان شامل ہیں۔
واضح ہو کہ اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے مجوزہ ترمیمی بل میں وقف ایکٹ 1995 کا نام تبدیل کر کے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ‘ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم ‘قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور وقف املاک کے مینجمنٹ اور آپریشن کو بہتر بنانے’ کے لیے ضروری ہیں۔
اس کا ایک مقصد خواتین کے وراثت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمیمی بل کے ’مقاصد اور وجوہات‘ کے مطابق وقف کوایسا کوئی بھی شخص جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہو اور متعلقہ اراضی پر مالکانہ حق رکھتا ہو۔
مجوزہ ترمیم کے تحت ایڈیشنل کمشنر سے وقف اراضی کے سروے کا اختیار واپس لے لیا گیاہے اور اب یہ ذمہ داری ضلع کلکٹر یا ڈپٹی کمشنر کو دے دی گئی ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی سطح پر وقف بورڈ میں دو غیر مسلم نمائندے رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے تحت بوہرہ اور آغاخانی برادریوں کے لیے علیحدہ ‘اوقاف بورڈ’ کے قیام کی بات بھی کہی گئی ہے۔
بل میں دفعہ 40 کو ہٹانے کا اہتمام ہے، جس کے تحت وقف بورڈ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔ اب اس کی جگہ نئے بل میں ضلع کلکٹر کو اس بات کا ثالث بنایا گیا ہے کہ آیا کوئی سرکاری جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔
جیسے ہی یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا، اپوزیشن کی جانب سے اجتماعی طور پر زبردست احتجاج کا مشاہدہ کیا گیا۔ ‘انڈیا’ اتحاد کی تمام جماعتیں – کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)، دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) (شرد پوار)، انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (سی پی آئی (ایم))، روولیوشنری سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی)، نیشنل کانفرنس (این سی) کے ساتھ ساتھ مجلس اتحاد المسلمین نے اس قانون کی مخالفت کی۔
تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو اہم اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) اور تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے بل کی حمایت کی۔ لیکن بعد میں یہ بھی کہا کہ انہیں اس کو پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیجے جانے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وائی ایس آر کانگریس پارٹی (وائی ایس آر سی پی)، جس نے نریندر مودی کی پچھلی دو میعادوں کے دوران پارلیامنٹ میں بی جے پی کے لائے گئے تمام قوانین کی حمایت کی تھی، نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔
‘آئین کی خلاف ورزی’
اس بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 26 کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے۔ اپوزیشن کے مطابق، اس طرح کے قانون کے ذریعے حکومت مسلمانوں کو اپنے معاملوں کا مینجمنٹ کرنے، جائیداد حاصل کرنے اور ایڈمنسٹریشن کی اجازت نہیں دینا چاہتی۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کے سی وینوگوپال نے کہا، ‘اس بل کے ذریعے حکومت ایک ایسی شرط شامل کررہی ہے جس کے ذریعہ بورڈ میں غیر مسلم کو بھی شامل کیا جائے گا جس کے ذریعہ بورڈ میں اس کونسل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا (مندر) بورڈ تشکیل دیا۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی غیر ہندو ایودھیا مندر بورڈ کا حصہ ہوگا؟ ایک دیواسووم مندر بورڈ ہے۔ کیا اس میں کوئی غیر ہندو ہو سکتا ہے؟ یہ شرط کہ غیر مسلم بھی کونسل کا حصہ بن سکتے ہیں عقیدے اور آزادی مذہب پر براہ راست حملہ ہے۔ یہ بل آئین کے دیے گئے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ ابھی آپ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، پھر آپ پارسیوں، جینوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی یہی کریں گے۔‘
ٹی ایم سی کے ایم پی سدیپ بندھوپادھیائے نے کہا کہ یہ بل غیر آئینی اور وفاقیت کے خلاف ہے۔
سدیپ نے کہاکہ یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، جو مساوات کا حق دیتا ہے اور یہ غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہبی آزادی کے حق کی بات کرتے ہیں۔ یہ وفاقیت کے بھی خلاف ہے کیونکہ 7ویں شیڈول کے مطابق زمین ریاست کا موضوع ہے۔ لہٰذا یہ بل تفرقہ انگیز، آئین مخالف اور وفاق کے خلاف ہے۔‘
ڈی ایم کے ایم پی کنی موذی نے کہا کہ حکومت کھلے عام آئین کے خلاف جارہی ہے اور یہ بل مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہے۔ مختلف مساجد کے بنیادی طور پر مندر ہونے پر جاری مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئیانہوں نے الزام لگایا کہ یہ بل مزید نفرت پیدا کرے گا۔
انہوں نے کہا، ‘کئی پرانی مسجدیں خطرے میں ہیں۔ اچانک ایک پی آئی ایل آتی ہے اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے، پھرانہیں پتہ چلتا ہے کہ پہلے وہاں ایک مندر تھا۔ اس سے ملک کے لوگوں میں نفرت اور تفرقہ کا ماحول پیدا ہوتا ہے، یہ بل خاص طور پر ایک مخصوص مذہبی گروہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جو کہ دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔‘
بی جے پی کے اتحادی اورجے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر للن سنگھ نے اس بل کی حمایت کی۔ تاہم، جب وہ اس کی حمایت میں تقریر کرنے کے لیے اٹھے تو انہیں اپوزیشن ارکان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا، ‘کئی ممبران کی تقریروں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم مخالف قانون ہے۔ یہ کیسے مسلم مخالف ہے؟ وہ ایودھیا مندر اور گرودوارہ کی مثال دے رہے ہیں۔ آپ تنظیم اور مندر میں فرق نہیں سمجھ رہے؟ یہ کوئی مندر نہیں ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ کی مسجد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے، یہ صرف وقف کی تنظیم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ہے۔’
جے ڈی یو ایم پی کے اس الزام پر کہ ممبران مندر، مسجد اور تنظیم میں فرق نہیں کر پا رہے ہیں، کانگریس کے ایم پی عمران مسعود کا کہنا تھا کہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ وقف بورڈ مسجدوں کا مینجمنٹ کرتا ہے اور تمام مسجدیں اس کے تحت کام کرتی ہیں۔ اور ڈی ایم کو حکومت کرنے کی اجازت دے کر آپ ایک ایسی سازش کی اجازت دے رہے ہیں جہاں وقف املاک پرتجاوزات کرنے والوں نے قبضہ کر لیا ہے۔‘
اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ بل واضح طور پر آرٹیکل 14، 25 اور 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ امتیازی ہے اور آئین پر سنگین حملہ ہے کیونکہ یہ عدالتی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘حکومت اس بات پر سخت پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان اپنی وقف املاک کا مینجمنٹ کیسے کر سکتے ہیں، جبکہ ہندو بندوبستی بورڈ (ہندو انڈومنٹ بورڈ) کو ان کے اپنے رسم و رواج کے تحت منظوری حاصل ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ یہ حکومت وقف بورڈ کو ہٹا کر درگاہ، مسجد اور وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس بل سے آپ ملک کو تقسیم کر رہے ہیں، متحد نہیں کر رہے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے دشمن ہو اور یہ بل اس کا ثبوت ہے۔‘
‘مذہب میں کوئی مداخلت نہیں’
مرکزی وزیر رجیجو نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ بل کسی مذہب میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
رجیجو کے مطابق، ‘یہ بل آرٹیکل 14، 25 اور 30 میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ برہمچاری بنام ریاست مغربی بنگال کیس میں، سپریم کورٹ کے فیصلہ کی انھوں نے مثال دی۔ وقف بورڈ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ ہم نے اسے جامع بنایا ہے۔ یہ حقوق چھیننے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خواتین، بچوں اور مسلم کمیونٹی میں پسماندہ لوگوں کو حقوق دینے کے بارے میں ہے۔‘
‘کنکرنٹ لسٹ کے اندراجات 10 اور 26 اس بل کو متعارف کرانے کے لیے قانون سازی کی اہلیت فراہم کرتے ہیں۔’
رجیجو نے مزید کہا کہ یہ بل جسٹس (ریٹائرڈ) راجندر سچر کی سربراہی والی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ ساتھ وقف پر جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی اور اور سینٹرل وقف کونسل کی رپورٹوں کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔
رجیجو کے مطابق وہ کانگریس کو بتانا چاہتے ہیںکہ یہ ترامیم اس مقصد کے لیے لائی جا رہی ہیں جو آپ (کانگریس) حاصل نہیں کر سکی۔
بورڈ میں غیر مسلموں کو لانے کے اپوزیشن کے الزام کا جواب دیتے ہوئے رجیجو نے کہا کہ یہ انتہائی قابل ’اعتراض‘ بات ہے۔
جب یہ بل پیش کیا گیا تو رجیجو نے کہا کہ حکومت بحث کے لیے تیار ہے لیکن بعد میں حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے بعد اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی پاس بھیج دیا گیا۔