مولانا آزاد مسلمانوں کے لیے مشعل راہ،مانو میں پروفیسر رضوان قیصر کا آزاد میموریل لکچر

   

حیدرآباد، 13؍ نومبر (پریس نوٹ) مولانا ابوالکلام آزاد ایک تاریخ ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔ انہوں نے جدو جہد آزادی اور ملک کی آزادی کے بعد شاندار کارناموں کی میراث چھوڑنے کے ساتھ ایک اہم نظریہ ساز ideologue کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایسی شخصیت کو صرف خراج پیش کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان سے تحریک حاصل کرنی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر رضوان قیصر ، نے 11 نومبر کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس میں مولانا آزاد یادگاری خطبہ بعنوان ’’سیاست، تعلیم اور ثقافت: مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندوستانی قومیت‘‘ دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارت کی۔ مولانا آزاد کی نظریہ ساز شخصیت کے ارتقاء کا جائزہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ الہلال کے دور میں مولانا نے جن نظریات کی اشاعت کی ان میں یہ بات واضح تھی کہ اسلام اور غلامی دو متضاد چیزیں ہیں وہ ایک نہیں ہوسکتیں، اقلیت اور اکثریت کا فیصلہ افراد کی تعداد پر نہیں بلکہ کارناموں پر ہوتا ہے ۔ پروفیسر رضوان قیصر نے مزید کہا کہ عمومی طور پر مولانا آزاد کے سیاسی نظریات کے آغاز کو 1912 میں الہلال کی اشاعت سے مربوط سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ 1906 ء میں ہی جدو جہد آزادی سے جڑ چکے تھے۔ مولانا آزاد اس وقت کے مجاہدین آزادی کو جو عمومی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تحریک آزادی سے وابستہ نہیں ہیں، کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ مسلمان بھی اس جنگ میں اُن کی طرح شریک ہیں۔مولانا نے ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی تنوع کو مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے ساہتیہ اکیڈیمی، للت کلا اکیڈیمی اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی جیسے اداروں کی داغ بیل ڈالی۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان اور یہاں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز قائم کیا۔ پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ مولانا آزاد کو محض خراج پیش کرنا کافی نہیں۔ ان کے پیام اور نظریات کو سمجھتے ہوئے ان سے تحریک حاصل کرنا ضروری ہے۔پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم فلسفی، ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات رہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد اور مدن موہن مالویہ نے انگریزی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ پروفیسر نوشاد حسین، نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد ظفر الدین نے رپورٹ پیش کی، خیر مقدم کیا اور مہمان کا تعارف کروایا۔ جناب انیس اعظمی نے کارروائی چلائی۔