محمد ریاض احمد
اپوزیشن بالخصوص کانگریس اور کمیونسٹ جماعتیں بی جے پی پر فرقہ پرستی کے جو الزامات عائد کرتی ہیں، یقینا وہ صداقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور شرد پوار جیسے سیاست داں جب یہ کہنے لگیں کہ ملک میں عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جارہا ہے، مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ مخالفین اور ناراض عناصر کو ڈرا یا دھمکایا اور ستایا جارہا ہے تو عوام کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ملک میں فرقہ پرستوں نے حالات انتہائی ابتر کردیئے ہیں۔ بھولے بھالے عوام کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر اس قدر شدت کے ساتھ گھولا جارہا ہے کہ ملک کے کونے کونے میں اس کے بھیانک اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں بلاجھجک یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے ۔ اس تعلق سے مختلف بہانے گھڑے گئے ہیں۔ عوام ہی نہیں مسلم سیاست دانوں کا بھی برا حال ہے جو حکمرانوں کو ببانگ دہل چیلنج کرتے ہیں تو انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جو سیاسی قائدین بلیک میل کا شکار ہوکر حکومت اور اس کو چلانے والوں کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ انہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن انہیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ملت باقی تو وہ بھی باقی ورنہ وہ بھی تاریخ کے اوراق کا ایک بدنما حصہ بن جائیں گے۔ اس قبیل کے سیاست دانوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج دریا میں ہے بیرون دریا کچھ نہیں
بات ہمارے وطن عزیز کے موجودہ حالات کی نکل پڑی ہے تو انصاف پسند، محب وطن ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے تازہ ترین، سانحہ داعی اسلام مولانا محمد کلیم صدیقی کی گرفتاری ہے جنہیں اترپردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے گرفتار کیا۔ اس معاملے میں بھی جھوٹے، فرضی ، بے بنیاد الزامات کا سہارا لیا گیا۔ بیرونی فنڈس حاصل کرنے کے بہانے تراشے گئے۔ جیسے ہی مولانا کی گرفتاری عمل میں آئی، ’’تلوے چاٹو میڈیا‘‘ یعنی ’’گودی میڈیا‘‘ نے میڈیا ٹرائیل شروع کردیا۔ حالانکہ مقدمہ کی سماعت کرنا کسی کو سزا دینا یا الزامات منسوبہ سے بری کرنا، ججس اور عدالتوں کا کام ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کے بارے میں میڈیا نے پولیس ذرائع کے حوالے سے یہ کہنا شروع کردیا کہ انہوں نے 5 لاکھ غیرمسلموں کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا، انہیں بیرونی فنڈس بھی حاصل ہوئے۔ صرف ایک عرب ملک بحرین سے 1.5 کروڑ روپئے بطور فنڈ موصول ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں مولانا کلیم صدیقی کا جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ ہی واحد ادارہ یا تنظیم ہے جسے بیرونی عطیات وصول ہوتے ہیں؟ کیا آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ تنظیموں اور اداروں کو بیرونی ممالک سے فنڈس نہیں ملتے؟ کیا ان تنظیموں کی شاخیں بیرونی ملکوں بشمول امریکہ میں قائم نہیں ہیں؟ جہاں تک حضرت مولانا کلیم صدیقی کی شخصیت کا سوال ہے، ان کا شمار نہ صرف اترپردیش یا ہندوستان بلکہ عالم اسلام کی اہم شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے مولانا کی گرفتاری کو لے کر عالم اسلام میں بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔ دینی و علمی حلقوں میں میں حکومت اترپردیش اور اترپردیش پولیس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور یہاں کے دستور نے اپنے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی فراہم کی ہے۔ ساتھ ہی کوئی بھی ہندوستانی کسی بھی مذہب پر چل سکتا ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت کرسکتا ہے۔ اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ ہر ہندوستانی کو اپنی پسند کا مذہب قبول کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ غرض ایک باوقار زندگی گزارنا ہر ہندوستانی شہری کا بنیادی حق ہے۔ اگر حکومتیں ، سرکاری ایجنسیوں خاص کر پولیس کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہیں، ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہیں تو پھر قانون کی حکمرانی دستور کی بالادستی ، جمہوریت کی طاقت، کہاں باغی رہتے ہیں۔ سب کے سب ختم ہوجاتے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور انہوں نے انسانوں کو نیکی کی طرف ہلانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں برائیوں سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے۔ مولانا کا قصور یہی ہے کہ انہوں نے انسانیت اور امن کا اسلامی درس لوگوں تک پہنچایا ہے اور لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ سب کا مالک ایک ہے۔ خدمت خلق ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔ انسانیت کی بقاء کیلئے انسانوں کے درمیان محبت و اُخوت کا جذبہ ضروری ہے۔ مولانا کا قصور یہی ہے کہ انہوں نے بے چین انسانوں کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ محبت و مروت ایثار و خلوص، ہمدردی اور انسانیت کیلئے برتنے والوں میں محبت بانٹی ہے۔ ان کے ساتھ ایثار و خلوص کا مظاہرہ کیا۔ ان کی آنکھوں سے ترسنے والے آنسوؤں کو پونچھا انہیں دلاسہ دیا، ان کی دلجوئی کی۔ اترپردیش اے ٹی ایس کے حوالے سے میڈیا کا یہ کہنا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرکے اے ٹی ایس نے مذہبی تبدیلی کے سب سے بڑا ریاکٹ بے نقاب کیا ہے۔ یہ الزام میڈیا کی مسلم دشمنی کے سواء کچھ نہیں کیونکہ میڈیا کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ مولانا کلیم صدیقی جیسے باعمل مسلمانوں کا اخلاقی طور پر مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مولانا کے اخلاق و کردار، ان کی سنجیدگی، متانت، سادگی، خلوص میں ڈوبا ہوا لہجہ، چہرے پر ہمیشہ کھلنے والی مسکراہٹ اور انسانیت نوازی سے ہی مختلف مذاہب، ذات پات، رنگ و نسل اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کے قریب آتے اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اے ٹی اے ایس کا یہ کہنا کہ ان کے ہاتھوں پر 5 لاکھ سے زائد غیرمسلموں نے اپنا مذہب تبدیل کیا۔ یہ تو کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر ذات پات پر مبنی امتیاز چھوت چھات کا شکار دلت اپنے مذہبی ٹھیکہ داروں سے تنگ آکر دامن اسلام میں پناہ لیتے ہیں، عیسائیت قبول کرتے ہیں تو اس میں قباحت کیا ہے، دستور ہند کی دفعہ 25 شہریوں کو اپنے پسند کا مذہب اختیار کرنے اس پر چلنے یہاں تک کہ اس کے تبلیغ کا حق دیتی ہے۔ اگر مولانا کے ہاتھ پر 5 لاکھ غیرمسلموں کا دامن اسلام میں پناہ لینا جرم ہے تو پھر 14 اکتوبر 1956ء کو کم از کم 5 لاکھ دلتوں کے ساتھ بابا صاحب امبیڈکر آر ایس ایس ہیڈکوارٹرس ناگپور میں ہندو مذہب ترک کرکے بدھ مت اختیار کیا تھا کیا وہ بھی جرم اور گناہ تھا۔ آج فرقہ پرست جس انداز میں جھوٹے الزامات کے تحت علماء کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ کیا وہ دستور کو معمارِ دستور ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری پر مختلف دینی و ملی گوشوں کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن کیا ہمارے علماء و مشائخین نے غور کیا ہے کہ کل تک بے قصور مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا رہا ہے۔ وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی برسوں سزا پاتے رہے، ان غیرقانونی کارروائیوں پر کیا ہم نے مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کی۔ سڑکوں پر نکلنا تو دُور جمہوری طور پر معمولی احتجاج کرنے سے بھی ہم نے گریز کیا۔ خود کو صرف اخباری بیانات تک محدود رکھا اور اب ہمارے سیاسی قائدین بھی صرف ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے اپنی قائدانہ ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرنے لگے ہیں۔ ہمارے علماء اور سیاسی قائدین کی خاموشی بہ الفاظ دیگر مصلحت پسندی کے نتیجہ میں ہی فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوئے جس کا نتیجہ مسلم نوجوانوں کو سر راہ ، بھرے بازاروں ، چلتی بسوں اور دوڑتی ٹرینوں میں چن چن کر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات نے بھی ان میں کوئی حرکت پیدا نہیں کی۔ وہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ حکومت کو اپنی طاقت و اہمیت کا احساس دلانے سے قاصر رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب یوپی جیسی بی جے پی زیراقتدار ریاست میں مذہبی تبدیلی کا بہانہ بناکر علماء کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ 3 ماہ قبول نو مسلم مولانا عمر گوتم اور مفتی جہانگیر کو گرفتار کرکے ان پر ایک ہزار سے زائد غیرمسلموں کو مسلمان بنانے اور برطانیہ کی ایک تنظیم سے 57 کروڑ روپئے فنڈس حاصل کرنے کے الزامات عائد کئے گئے۔ اب بھی یہ شخصیتیں جیلوں میں بند ہیں۔ ان گرفتاریوں پر بھی ہم اور ہمارے علماء نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جبکہ سیاسی قائدین کی زبانوں پر مفاد پرستی کے تالے پڑ گئے تھے۔ اس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید ، مضبوط ہوئے اور ان کے اشاروں پر یو پی اے ٹی ایس نے مولانا کلیم صدیقی جیسی شخصیت کو گرفتار کرلیا۔ جبکہ وہ میرٹھ کے ہمایوں آباد کی ماشاء اللہ مسجد میں ایک محفل میں شرکت کے بعد اپنے آبائی گاؤں مظفر نگر کے پھلت جارہے تھے۔ راستے سے مولانا کلیم صدیقی جیسی بلند قامت شخصیت کو اے ٹی اے ایس کی جانب سے اٹھایا جانا یقینا ہمارے علماء کیلئے لمحہ فکریہ اور درس عبرت ہے جس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف مختلف بہانوں سے کارروائی شروع کی گئی تھی۔ اس وقت ہی ہمارے علماء و مشائخین اٹھ کھڑے ہوتے تو آج کسی حکومت کی یہ مجال نہ ہوتی کہ وہ علماء پر ہاتھ ڈالیں۔ ان کی پگڑیاں اُچھالیں۔ اس معاملے میں ہم تمام اور علماء کیلئے سکھ قوم جرأت و بے باکی کی ایک بہترین مثال ہے۔ اگر دہلی یا یوپی میں کسی ڈرائیور کی داڑھی بھی کوئی پولیس والا پکڑ کر کھینچتا ہے تو یوپی سے لے کر پنجاب تک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس پولیس اہلکار کو معطل کردیا جاتا ہے۔ افسوس کے اترپردیش میں ایک مسلم شخصی کی داڑھی کاٹ دی جاتی ہے، اسے آپسی مخاصمت قرار دیا جاتا ہے تو ہمارے علماء اس واقعہ کے خلاف آواز اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ سی اے اے کے معاملے میں جب خواتین نے شاہین باغ میں احتجاج کیا تب ایک دو علماء کے سواء تمام نے خاموشی اختیار کی۔ سیاسی قائدین تو وہاں جانے شرماتے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جے این یو پر کئے گئے حملوں پر بھی علماء و مشائخین نے تماشائیوں کا کردار ادا کیا۔ ہمارے بچے زخمی ہوئے۔ اپنے ہاتھ پاوؤں سے محروم ہوئے لیکن کسی نے حکومت اور پولیس کی غیرقانونی کارروائیوں کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کی۔ اسی خاموشی کا نتیجہ ہے کہ ہم آج ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا آسان نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ جس کی تازہ مثال آسام میں مسلم مکینوں کیخلاف پولیس کی ظالمانہ کارروائی ہے جس میں دو احتجاجی شہید ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں شہید کی نعش پر ایک کیمرہ مین لاتیں برسا رہا تھا۔ یہ سب کچھ ظلم سہتے ہوئے ظالم کی مدد کرنے کا نتیجہ ہے ۔ فی الوقت ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی بے بس و مجبور بلکہ بے حس نظر آتا ہے۔ موجودہ حالات میں اسے فوری تحلیل کرکے ایسی شخصیتوں کو اس میں شامل کیا جانا چاہئے جن میں جرأت و بے باکی اور ہوش مندی سے فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔
[email protected]