’’مکروہ امریکہ‘‘ سے افغانیوں کی نفرت

   

یشونت سنہا
وہ سال 2002ء اور ماہ اکتوبر کا تھا اور اس سے چند ماہ قبل میں نے وزیر اُمور خارجہ کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا اور ہندوستان کے پڑوسی ملکوں کے پہلے خیرسگالی دورے کررہا تھا۔ ان ہی دوروں کے ایک حصہ کے طور پر میں نے دورۂ افغانستان کا فیصلہ کیا جو چند ماہ قبل ہی طالبان کے شکنجے سے آزاد کروایا گیا تھا۔ افغانستان کا دورہ کوئی معمولی دورہ نہیں تھا بلکہ وہاں جانا مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ایسے میں میں نے ہیرات، مزار شریف، قندھار کے دورہ کا فیصلہ کیا۔ ہیرات میں مقامی جنگجوؤں کے سردار اسمعیل خاں نے میرا اس قدر شاندار اور متاثرکن انداز میں خیرمقدم کیا جیسے کسی سربراہِ حکومت کا کیا جاتا ہے۔ میں نے اس خیرمقدم کے جواب میں یہی کہا کہ اسمعیل خاں کیلئے ہندوستان کیا کرسکتا ہے۔ اس وقت اُس افغان سردار نے ایک سادہ سی درخواست کی کہ سلمیٰ ڈیم کی تعمیر کروائی جائے جس سے لوگوں کو کافی مدد ملے گی۔ تب میں نے اثبات میں جواب دیا اور ہندوستان واپسی کے فوری بعد ہم نے ماہرین کی ایک ٹیم روانہ کی تاکہ سلمی ڈیم کیلئے ایک پراجیکٹ رپورٹ تیار کی جائے۔ بہرحال WAPCOS انڈیا نے 290 ملین ڈالرس کے مصارف سے تعمیر کیا جس کا افتتاح جون 2016ء میں وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے افغانی ہم منصب اشرف غنی کے ساتھ کیا۔ سلمی ڈیم کو ’’ہند ۔ افغان دوستی ڈیم ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، لیکن کسی کو بھی یہ یاد نہیں کہ ڈیم کی تعمیر کس طرح عمل میں آئی۔ لوگ افتتاح کرنے والوں کو یاد رکھتے ہیں، اور اس کی پہل کرنے والوں کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہو میرے لئے قندھار ایک خصوصی مقام رکھتا ہے کیونکہ وہ قندھار ہی تھا جہاں ڈسمبر 1999ء کو انڈین ایرلائینز کا ایک طیارہ اغوا کرکے لے جایا گیا تھا اور جسونت سنگھ ہندوستانی طیارہ واپس لانے کیلئے قندھار گئے تھے۔ جو عہدیدار جسونت سنگھ کے ہمراہ اُس دورہ میں شامل تھے، ان میں سے کچھ میرے دورۂ قندھار کے موقع پر بھی میرے ساتھ تھے۔ لیکن میرے اور جسونت سنگھ کے دورہ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ میں ایک ایسے مہمان کے طور پر گیا تھا جہاں پر میرا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ اِس مرتبہ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جس وقت ہم طیارہ سے نیچے اُترے، کوئی بھی استقبالیہ کمیٹی ایرپورٹ پر ہمارا استقبال کرنے کیلئے موجود نہیں تھی، سوائے چند بندوق بردار امریکی سپاہیوں کے جو ہمارے طیارے کے قریب آئے اور بڑی بے تابی سے ہمارے طیارہ کو دیکھنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ایک بڑے بالوں والا شخص ہانپتا کانپتا بھا گتا ہوا طیارہ کے قریب آیا اور خود کو گورنر قندھار کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ اس نے معذرت خواہی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس کے آنے میں تاخیر اس لئے ہوئی کیونکہ ایرپورٹ جن امریکی سپاہیوں کے قبضے میں ہے، ان لوگوں نے اسے سکیورٹی چیک کیلئے روک دیا تھا اور یہاں تک کہ اس کی جامہ تلاشی لی گئی۔ گورنر قندھار کی اُن باتوں سے میں حیران رہ گیا اور یہ سوچنے لگا کہ امریکی فورسیس اس کے اپنے علاقہ میں افغان گورنر کی جامہ تلاشی لے رہے ہیں۔ اسی وقت افغانستان میں امریکی فورسیس کا حشر میرے ذہن میں واضح ہوگیا کہ ایک دن اسی سرزمین قندھار میں افغان ، امریکی فورسیس کو بھی برداشت نہیں کریں گے۔ جب تک امریکہ اپنے سپاہی وہاں تعینات کرے گا تب تک وہ برداشت کرتے رہیں گے، لیکن ایک دن ضرور آئے گا جب امریکی فورسیس کا موقف تبدیل ہوجائے گا۔
طالبان کا جہاں تک سوال ہے، وہ ملک کے جس کسی حصے میں گئے، تباہی و بربادی وہاں کا مقدر بنی اور آج دنیا اس بات پر حیران ہیں کہ طالبان کس قدر تیزی سے اقتدار کے قریب پہنچ گئے، لیکن میں ہرگز حیران نہیں ہوں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ افغانستان پر کبھی نہ کبھی طالبان کا اقتدار ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کی کٹھ پتلی فوج تھی ، ان میں طالبان کے خلاف لڑنے کا عزم و حوصلہ نہیں تھا۔ ساری دنیا بشمول انڈیا ، افغانستان کی صورتحال پر صدمہ کا شکار ہے اور مایوسی سے اپنے ہاتھ مل رہے ہیں، یعنی فکرمند ہیں 20 سال تک امریکیوں نے افغانستان میں طالبان کی متبادل حکومت کو مستحکم کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔ افغان فوج کو عصری ہتھیاروں اور آلات حربی سے لیس کیا، انہیں تربیت فراہم کی اور تاش کے پتوں کی طرح بکھرے اس ملک کی تعمیر نو میں مدد کی۔ مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل کے مورخین افغانستان کی اس موجودہ حالت اور امریکی شکست کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیں گے، لیکن میرے خیال میں امریکیوں کو کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح اور اقتدار کے دنیا اور خطے کے ساتھ ساتھ ہندوستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟طالبان ترجمانوں کے حالیہ عرصہ میں دیئے گئے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 20 سال قبل جو طالبان تھے، اب وہ اور ان کی پالیسیاں بدل چکی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے اور ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ انقلابی جب اقتدار کے بوجھ تلے دبتے ہیں تو ذمہ دار حکمرانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ طالبان ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور ذمہ دارانہ حکمرانی کریں گے۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے، امریکہ بہت بدنام ہوچکا ہے، اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی کا بااعتماد حلیف نہیں بن سکتا اور اب امریکہ کیلئے ’’انٹرنیشنل پولیس مین‘‘ کی حیثیت سے کام کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ اب سے دنیا میں کہیں بھی یکطرفہ امریکی فوجی کارروائی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
ہندوستان نے افغان عوام کی ترقی و بہبود کیلئے بہت کچھ کیا۔ کابل میں ہندوستان نے افغان پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کروائی اور کئی اہم پراجیکٹس کیلئے مالی مدد فراہم کی۔ ایسے میں ہندوستان کو دفاعی انداز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جس کی افغانیوں نے ستائش بھی کی۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ 3 ارب ڈالرس ہماری صلاحیتوں کی حد نہیں، ہم اس سے بہتر کرسکتے ہیں۔ ہندوستان ویسے بھی افغان شہریوں میں بہت مقبول ہے۔ ہر طرف ہماری سافٹ پاور دیکھی جاسکتی ہے۔ 2002ء میں قندھار کے گورنر نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے پاس ہندوستانی موسیقی کے بے شمار کیسیٹس ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان کو یہ جان لینا چاہئے کہ کابل میں طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے۔ پاکستان، چین اور روس نے افغانستان میں ہوئی تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا ہے اور نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ طالبان نے کابل فتح کرنے کے بعد جو بیانات جاری کئے، وہ ان کے بدلتے تیور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہندوستان پہلے ہی سے طالبان کے ربط میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان روابط کو کُھلے اور راست انداز میں مضبوط بنایا جائے۔ ہندوستان کو چاہئے کہ وہ پاکستان اور چین کیلئے میدان نہ چھوڑے جیسے کہ یہ دونوں ممالک چاہتے ہیں۔ ہندوستان کو یہ بھی چاہئے کہ وہ طالبان کے ساتھ پورے اعتماد کے ساتھ بات چیت کرے اور اپنا موقف مضبوط رکھے۔ طالبان پر یہ بھی ظاہر کیا جائے کہ ہندوستان کو افغان عوام کیلئے کئے گئے اپنے اقدامات پر فخر ہے اور نئی حکومت میں بھی ہندوستان ، افغانیوں کی بھلائی کیلئے بہت کچھ کرسکتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان ، افغان عوام میں بہت مقبول ہے اور اس اثاثے کا مکمل طور پر استعمال کرنا چاہئے۔
نوٹ : یشونت سنہا بی جے پی کے سابق لیڈر اور سابق میں مرکزی وزیر فینانس (1998ء تا 2002ء) اور وزیر خارجہ (2002ء تا 2004ء) کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فی الحال وہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے نائب صدر ہیں)