پی چدمبرم
اگر آپ اسپائڈر کی ویب پر معلومات کے لئے انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہیں تو آپ کو مکھڑی کے جالوں کے بارے میں 6 حیران کردینے والے حقائق کا پتہ چلے گا۔ یہ حقائق حسب ذیل ہیں:
(۱) مکھڑیوں میں حس عزم پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ غیر معمولی عزم کو پسند کرتی ہیں۔
(۲) مکھڑیوں کے جال شکار کو جھپٹ کر یا لپک کر نہیں پکڑتے اور نہ ہی ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔
(۳) مکھڑی کے جال کچھ وجہ کے لئے چمکیلے ہوتے ہیں۔
(۴) مکھڑیاں ہمیشہ تاک میں اور چوکس رہتی ہیں۔
(۵) مکھڑیوں کی سوچ ہمیشہ بڑی ہوتی ہے۔
(۶) مکھڑیاں اکثر اپنی جالوں کو ہر روز بدلتی رہتی ہیں۔
اگر آپ میری ہی طرح سوچ رہے ہوں تو پھر آپ یہ کہیں گے ’’کسی حد تک مناسب بات ہے‘‘ ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے ہند۔ چین سرحد پر سنگین غیر یقینی صورتحال کا بیجا استعمال کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ انہوں نے مناسب موقف اختیار کیا اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے کورونا وائرس کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا اس میں ہو رہی شکست کا بھی وہ بیجا استعمال کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ راجستھان میں اقتدار کی جنگ یا جو ہلچل جاری ہے اس صورتحال کا بھی ایسا لگتا ہیکہ وہ بیجا استعمال کررہے ہیں اور اپنی کارستانیوں کو وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے مناسب قرار دیتے ہیں۔ راجستھان ایک ایسی ریاست ہے جہاں ملک کی دو بڑی پارٹیاں یعنی کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے کے ساتھ الجھی ہوئی ہیں۔ ایک کا مقصد اقتدار برقرار رکھنا اور دوسرے کا مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔
راجستھان :مسٹر سچن پائلٹ بڑے عزائم رکھنے والے ایک نوجوان شخص ہیں اور اُس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کے حملے کا وقت بہت غلط ہے تھا۔ انہوں نے ایک غلط موقع پر غلط فیصلہ کیا۔ یہ ایسا وقت ہے جبکہ ساری قوم بشمول راجستھان ایک نہیں بلکہ تین ایسے چیالنجس کا سامنا کرر ہے ہیں جن کا قومی سطح پر یا پھر راجستھان نے کبھی سامنا نہیں کیا۔ جہاں تک معیشت اور عالمی وباء کا تعلق ہے بی جے پی اور حکومت دونوں نے معیشت کو بہتر بنانے اور کورونا وباء پر قابو پانے کے لئے کچھ کرنا چھوڑ دیا ہے یعنی اس ضمن میں اقدامات سے دستبرداری اختیار کرلی ہے اور دوسری طرف چینی قبضہ کے خلاف حکومت صرف بھڑک رہی ہے اور سرحد پر جو حقیقی صورتحال ہے اس کے انکشاف سے گریز کررہی ہے۔ مرکزی حکومت چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کی حقیقت سے قوم کو واقف کروانے سے کترارہی ہے۔ حکومت کے ترجمان جو کچھ کہہ رہے ہیں یا جو بیانات دے رہے ہیں وضاحتیں کررہے ہیں ان میں بے شمار متضاد، باتیں پائی جاتی ہیں۔ مسٹر لو اگروال مسٹر انوراگ سریواستو جو کہتے ہیں اسے سمجھتے ہیں تو مجھے حیرانی ہوگی یا پھر ہر ہفتہ مرکزی وزیر فینانس جو بیانات جاری کرتی ہیں میرے خیال میں مسٹر اگروال و سریواستو دونوں ہی انہیں سمجھ نہیں پاتے۔ جہاں تک مسٹر پائلٹ کا سوال ہے وہ نظریاتی طور پر بی جے پی سے بہت دور ہیں ان کی اور بی جے پی کی فطرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یا ہم ایسا سمجھتے ہیں۔ مسٹر پائلٹ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں راجستھان میں اس قسم کا تماشہ کرنے کی بجائے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے خلاف لڑائی میں لوگوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ریاست کی معیشت کو دوبارہ اس کے پیروں پر کھڑا کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہتر ہوتا۔ ان کے سامنے موہن لال سکھاڈیہ صبر و تحمل کی مثال ہے۔ مسٹر پائلٹ کو مراتھن میں دوڑنے کی تیاری کرنی چاہئے تھی اور اس کے بعد ہی وہ موہن لال سکھاڈیہ کی طرح ایک طویل مدت تک چیف منسٹر ہوسکتے تھے۔ان میں حس عزم کی نمایاں صفت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے انہوں نے اپنے شکار کو پکڑنے اور اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں وہ بیچ دریا میں پھنس گئے ہیں وہ نہیں جانتے کہ انہیں اپنی کشتی کس ساحل کی سمت بڑھانی ہے۔
معیشت : ملک کی معیشت کو دیکھئے یا پھر یہ دیکھئے کہ اس ملبہ میں کیا بچا ہے۔ ہم نے پہلے جو اندازہ لگایا تھا اس سے کہیں زیادہ اور طویل مدتی معاشی انحطاط میں گہرائی تک پھنس چکے ہیں۔ پہلا سہ ماہی جاچکا ہے۔ اس کے باوجود معیشت میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے یا مالی محرک نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ اشیاء اور خدمات کے لئے صارفین کی طلب میں اضافے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ قومی معیشت کی احیاء کے لئے جو اقدامات کئے گئے ہیں انہیں کافی و موثر قرار دینے والے صرف وزیر فینانس نرملا سیتارامن، مسٹر کے وی سبرامنین، مسٹر راجیو کمار اور وزیر اعظم کے تقریر لکھنے والے صاحب ہیں۔ یہ چاروں یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے معاشی نمو کے احیاء کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ موثر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان چاروں کی تائید کرتے ہوئے ان کے ساتھ شمار کئے جانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں معیشت کی ازسر نو تعمیر کے لئے حسِ عزم نہیں پائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ عملی طور پر تباہ کن ہے۔
کورونا وائرس : کورونا وائرس کئی ایک خصوصیات کا حامل ہے اور خاص طور پر مکھڑی میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں کورونا وائرس میں بھی وہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مکھڑی جس طرح کہیں بھی اپنا جالا بناتی ہے اسی طرح کورونا وائرس ہر ملک میں داخل ہوگیا ہے اور ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں بھی یہ داخل ہوچکا ہے اور تباہی و بربادی مچا رہا ہے۔ ہر ریاست ہر ضلع میں کورونا وائرس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ جہاں تک اس وائرس کا سوال ہے اس نے دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے موسم اور حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ وہ تو مختلف ممالک کے آبادیوں، وہاں کے موسم، لوگوں و عادات و اطوار، شعبہ صحت کی بنیادی سہولتیں، آمدنی کی سطحوں، تیاریوں اور حکومتوں کی انتظامی صلاحیتوں کے مطابق خود کو ڈھال چکا ہے۔ جب ہندوستانی عوام کو یہ تیقن دیا گیا کہ کورونا وائرس کے خلاف 21 دن میں جنگ جیتی جائے گی اس پر سوائے وزیر اعظم جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کورونا کے خلاف جنگ کو 18 دن کی مہابھارت جنگ سے تقابل کیا۔ عوام کو یہ یقین تھا کہ مودی نے جو وعدہ کیا وہ جھوٹا تھا۔ بہرحال اب ہم سیکھ چکے ہیں کہ جب تک ٹیکہ دریافت نہیں ہو جاتا اس وائرس کے خلاف کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ عوام نے اب حکومتوں چاہے وہ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ان پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے۔
چین : اگر دیکھا جائے تو چین اصلی مکھڑی ہے۔ مکھڑی میں جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں وہ تمام خاصیتیں چین میں بھی پائی جاتی ہیں۔ چین کی سوچ بہت بڑی ہوتی ہے اور وہ شکار کو راغب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 6 برسوں کے دوران چین کے قائد کے ساتھ 18 اجلاس بشمول ایک سرکاری دورہ اور تین سربراہ اجلاس۔ جہاں تک وزیر اعظم کا سوال ہے ان میں انا پائی جاتی ہے (انا تمام وزرائے اعظم میں ہوتی ہے) وہ اپنی پارٹی کے لئے بڑے عزائم رکھتے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ژی جن پنگ نے مودی کا اچھی طرح جائزہ لیا اور اعلیٰ سطحی معاشی اور تجارتی مذاکرات کے بارے میں چاپلوسانہ گفتگو کی۔ یہاں تک کہ باہمی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا پیشکش کیا اور 2020 کو ہند۔ چین تہذیبی و عوام سے عوام تبادلہ کا سال قرار دینے کا وعدہ کیا۔ پھر جنوری 2020 میں چینی صدر نے پیپلز لبریشن آرمی کو ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کے لئے آگے بڑھنے سبز جھنڈی دکھائی۔ اگر چین ، ہندوستان کے خلاف اپنے عزائم میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر اپنے آپ سے پوچھئے کہ چین کا کیا مقام ہوگا اور سوائے مسٹر ٹرمپ کے دنیا کا کونسا لیڈر ہندوستان کے خلاف چین کی جارحانہ مہم کی مذمت کرے گا۔ اگر چین مکھڑی ہے تو ہندوستان شکار ہے جو مکھڑی کے جال کی جانب خود بہ خود راغب ہوا اور جہاں تک مکھڑی کا سوال ہے وہ کبھی آرام نہیں کرتی۔