اپریل سے آؤٹ سورسنگ کی تجویز، مسلمانوں میں بے چینی، امام مکہ مسجد 11 ماہ کی تنخواہ سے محروم
حیدرآباد: حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور وظیفہ پر سبکدوشی کی حد میں تین سال کی توسیع کرتے ہوئے کئی لاکھ ملازمین کو فائدہ پہنچایا ہے لیکن حکومت کے پاس شہر کی دو تاریخی مساجد کے 30 ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کیلئے بجٹ نہیں ہے۔ تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ کے 30 باقاعدہ ملازمین کو 31 مارچ سے آؤٹ سورسنگ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس سلسلہ میں سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے میمو کی اجرائی کے بعد نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملازمین اور ان کے افراد خاندان میں بے چینی پیدا ہوچکی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے یادادری مندر کو ترقی دینے کیلئے 1800 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں اور مندروں کے پجاریوں کو سرکاری ملازمین کے مماثل تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے 30 ملازمین بشمول خطیب ، امام اور مؤذن حکومت کے لئے بوجھ بن چکے ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیداروں کودونوں مساجد اور ان کے ملازمین سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ حالانکہ چیف منسٹر تمام مذاہب کے احترام اور دونوں مساجد کی ترقی کے بارے میں بارہا اعلانات کرچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 31 مارچ سے 30 ملازمین کو ہر سال کی بنیاد پر آوٹ سورسنگ ملازمین شمار کیا جائے گا اور کسی خانگی ادارے سے خدمات منسلک کرتے ہوئے تنخواہیں ادا کی جائیں گی ۔ برسوں سے باقاعدہ ملازمین کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والوں کو اچانک آؤٹ سورسنگ قرار دینا نہ صرف ملازمین بلکہ دونوں مساجد سے حکومت کی عدم دلچسپی کو ثابت کرتا ہے ۔ سپرنٹنڈنٹ مکہ مسجد محمد عبدالقدیر صدیقی نے میمو کی مخالفت کرتے ہوئے سکریٹری اقلیتی بہبود کو تفصیلی رپورٹ روانہ کی اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود شاہنواز قاسم نے ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے اور تنخواہوں میں اضافہ کی سفارش روانہ کی ہے لیکن سکریٹری اقلیتی بہبود مذکورہ فائل پر کسی بھی کارروائی سے گریز کر رہے ہیں۔ اب جبکہ 31 مارچ کو محض دو دن باقی رہ گئے ہیں، دونوں مساجد کے ملازمین کی بے چینی میں اضافہ ہوچکا ہے۔ آؤٹ سورسنگ ملازمین کی صورت میں کنٹراکٹر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ پہلے وہ ہر سال ملازمین کو تبدیل کردے۔ خطیب ، امام اور مؤذن یہ تینوں ایسے معتبر اور محترم عہدے ہیں جنہیں آؤٹ سورسنگ کے تحت شامل کرنا مسلمانوں کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا۔ تینوں عہدوں کو مستقل کرنے اور تنخواہوں میں اضافہ کے بجائے آؤٹ سورسنگ قرار دے کر مزید توہین کی جارہی ہے ۔ مکہ مسجد کے تحت 24 اور شاہی مسجد کے 6 ملازمین ہیں جن میں خطیب ، امام اور مؤذنین شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 1948 ء کے بعد دونوں مساجد کو حکومت کے ذمہ کردیا گیا اور محکمہ انڈومنٹ کو مینٹننس کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کمشنر انڈومنٹ دونوں مساجد کے مسائل بشمول تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملات کی بروقت یکسوئی کرتے رہے۔ کمشنر انڈومنٹ نے دونوں مساجد کے علاوہ انڈومنٹ کے تحت موجود مندروں کے ملازمین کیلئے سرویس رولس تیار کرنے کی تجویز پیش کی تھی ۔ مندروں کے ملازمین کے لئے سرویس رولس تیار کئے گئے اور انہیں سرکاری ملازمین کی طرح مراعات دیجانے لگی لیکن دونوں مساجد کے ملازمین اس سہولت سے محروم رہے ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے قیام کے بعد مساجد کو محکمہ کے تحت کردیا گیا اور صورتحال میں بہتری کے بجائے مزید ابتر ہوگئی ۔ انڈومنٹ میں جو ملازمین ریگولر تھے، انہیں کنٹراکٹ اور آؤٹ سورسنگ شمار کیا جانے لگا۔ ملازمین کا ڈی اے اور ایچ آر اے روک دیا گیا ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت نے جی ایچ ایم سی ، آر ٹی سی اور محکمہ تعلیم کے عارضی ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنایا ہے۔ لیکن مکہ مسجد کے ملازمین کے بارے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ 31 مارچ سے آوٹ سورسنگ کے تحت خدمات کی صورت میں دونوں مساجد کے انتظامات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ 1976 ء سے دونوں مساجد کے ملازمین کی تعداد میںکوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ ملازمین کو ماہانہ 12 تا 17 ہزار روپئے تنخواہ ادا کی جاتی ہیں جو ہوم گارڈس کی تنخواہ سے بھی کم ہے۔ صفائی عملہ کو ماہانہ 12,000 میں 6,000 روپئے مکان کرایہ کے طورپر خرچ ہوجاتے ہیں۔ محض 6,000 روپئے سے خاندان کی کفالت کرنا کیسے ممکن ہوگا۔ مسجد کے امور سے حکومت کی عدم دلچسپی کا افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ مسجد میں فجر اور ظہر کی امامت کرنے والے امام گزشتہ 11 ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں۔ میعاد کی تکمیل سے دیڑھ ماہ قبل سپرنٹنڈنٹ نے توسیع کے لئے حکومت سے سفارش کی تھی لیکن آج تک توسیع نہیں کی گئی اور 11 مارچ سے تنخواہ کے بغیر امام اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں مساجد کے ملازمین کو وظیفہ کیلئے 65 سال کی عمر کی حد مقرر ہے ، اس کے علاوہ سال میں 15 دن رخصت اور سبکدوشی کے وقت تین لاکھ روپئے کی ادائیگی کی گنجائش موجود ہے۔ آؤٹ سورسنگ قرار دیئے جانے کے بعد ملازمین ان مراعات سے محروم ہوجائیں گے ۔ وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور اور وزیر داخلہ محمد محمود علی کے علاوہ برسر اقتدار پارٹی کے مسلم ارکان اسمبلی کو اس جانب فوری توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔