اقلیتی بہبود عہدیداروں کو کوئی دلچسپی نہیں، تعمیری اور مرمتی کام رمضان سے قبل تکمیل سے قاصر، مصلیوں کا اظہار تشویش
حیدرآباد۔15 ۔جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی اور بھلائی کے سلسلہ میں اسکیمات کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حکومت کے تحت موجود دو عبادت گاہوں کے موثر انتظامات میں محکمہ اقلیتی بہبود بری طرح ناکام ہوا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کو تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے انتظامات کی ذمہ داری ہے جس میں ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور مینٹننس شامل ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے یادادری مندر کو تروپتی کی طرح ترقی دینے کیلئے 1500 کروڑ سے زائد بجٹ مختص کیا اور جنگی خطوط پر تعمیری اور تزئین نو کے کام جاری ہیں۔ چیف منسٹر نے تعمیری کاموں کا جائزہ لینے کیلئے تقریباً 15 مرتبہ بھونگیر کا دورہ کیا۔ برخلاف اس کے حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد کو چیف منسٹر کی جانب سے ایک مرتبہ بھی دورہ نہیں ہوا۔ اتنا ہی نہیں وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور کو مکہ مسجد کے تعمیری و مرمتی کاموں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں جس کے نتیجہ میں اقلیتی بہبود کے عہدیدار بھی اس تاریخی مسجد کے امور کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود کے عہدوں پر مسلم عہدیداروں کی موجودگی کے باوجود تاریخی مکہ مسجد حکام کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ مسجد کے تعمیری و مرمتی کاموں کی سست رفتاری کے بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں لیکن ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے معاملہ میں عہدیداروں کی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد کے ایک امام تقریباً 16 ماہ سے تنخواہ سے محروم ہے لیکن عہدیداروں کو اس بات کی فکر نہیں کہ محکمہ فینانس سے متعلقہ فائل کی منظوری حاصل کریں۔ ملازمین کو ہر تین سال میں خدمات میں توسیع دی جاتی ہے اور امام مکہ مسجد لطیف احمد کی میعاد کی تکمیل سے دو ماہ قبل محکمہ کو توسیع سے متعلق فائل روانہ کی گئی ۔ کورونا وباء اور لاک ڈاون کا بہانہ بناکر محکمہ فینانس نے فائل کو پنڈنگ کردیا۔ افسوس کہ اقلیتی بہبود کے سکریٹری اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے اس سلسلہ میں محکمہ فینانس سے کوئی نمائندگی نہیں کی جس کے نتیجہ میں توسیع سے متعلق فائل ابھی بھی زیر التواء ہے ۔ امام مکہ مسجد گزشتہ 16 ماہ سے بدستور فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن انہیں تنخواہ ادا نہیں کی جارہی ہے ۔ اس معاملہ میں مسلم عوامی نمائندوں کی بے حسی بھی تشویش کا باعث ہے ۔ ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر کی جانب سے بارہا توجہ دہانی کا اعلیٰ عہدیداروں پر کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ سپرنٹنڈنٹ مکہ مسجد تنخواہوں اور تعمیری و مرمتی کاموں کے سلسلہ میں عہدیداروں کو مسلسل تحریری نمائندگی کر رہے ہیں۔ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن کے حالات میں ہر شخص معاشی مسائل کا شکار ہیں لیکن عہدیداروں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ امام مکہ مسجد 16 ماہ تنخواہ کے بغیر کس طرح گزارا کر رہے ہیں ۔ اسی دوران محکمہ اقلیتی بہبود نے مسجد کے ایک اور امام حافظ محمد عثمان کی وظیفہ پر سبکدوشی کا شمار مئی سے شروع کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران اور جاریہ سال اپریل تک انہیں تنخواہ ادا کی گئی۔ انہوں نے تحریری طور پر سبکدوشی کا مکتوب محکمہ کو حوالے کیا تھا۔ مکہ مسجد کے تعمیری اور تزئین نو کے کام انتہائی سست رفتاری کا شکار ہیں۔ اس بار بھی رمضان المبارک تک کاموں کی تکمیل کی امید نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں اور مصلیان مسجد نے چیف منسٹر سے خواہش کی ہے کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ مسجد کا دورہ کرتے ہوئے انتظامات کا جائزہ لیں۔ مسلمانوں کو یادادری مندر کی ترقی کے لئے سینکڑوں کروڑ کی منظوری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ تاریخی مکہ مسجد کیلئے بھی سینکڑوں کروڑ نہ سہی درکار رقم جاری کی جائے جو ایک دو کروڑ سے زائد نہیں ہوگی۔ وزیر اقلیتی بہبو د اور سکریٹری اقلیتی بہبود کو مسجد کی زبوں حالی اور ملازمین کے مسائل پر فوری توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔