مگر ظالم سے ڈر جانے کا نیئں

,

   

نریندر مودی … دہلی سے زیادہ اترپردیش میں
شکست کا خوف … بھڑکاؤ بھاشن کا سہارا

رشیدالدین
ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات کوئی نئی بات نہیں ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات کو نیا رنگ اور نیا ڈھنگ دیا ہے ۔ الیکشن میں حکومت کو کچھ اس طرح جھونک دیا گیا جیسے وہ برسر اقتدار پارٹی کی مہم چلا رہی ہو۔ انتخابات میں سرکاری مشنری کے استعمال کے بارے میں الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان میں کسی قدر سچائی بھی ہوتی ہے لیکن 2014 ء کے بعد سے انتخابات، برسر اقتدار پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ حکومت کا اپوزیشن سے مقابلہ بن چکے ہیں۔ مرکز ہو کہ برسر اقتدار ریاستیں بی جے پی نے اپنی حکومت کو انتخابات میں جھونک دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت خود میدان میںآجائے تو پھر سرکاری خزانہ ، پولیس اور سیول نظم و نسق بی جے پی کے کنٹرول میں رہے گا ۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں مودی حکومت نے بی جے پی مہم کی کمان سنبھال لی ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی جنون کی حد تک یو پی کی مہم سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کی ذمہ داریوں کو فراموش کرتے ہوئے مودی نے اترپردیش کو دوسرا دارالحکومت بنادیا ہے۔ جب بھی دیکھو مودی اترپردیش کے کسی علاقہ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کیلئے مودی نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو بھی نظر انداز کردیا ۔ اہم ترین مسائل پر مودی نے پارلیمنٹ میں ایک لفظ نہیں کہا بلکہ عوامی جلسوں کے ذریعہ پارلیمنٹ کو مخاطب کیا ۔ مودی نے پارلیمنٹ کے بجائے اترپردیش کے دوروں کو اہمیت دیتے ہوئے دستور ساز ادارہ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ سرمائی سیشن میں نریندر مودی نے ایوان میں ایک دن بھی کسی مسئلہ پر اظہار خیال نہیں کیا ہے جبکہ کئی اہم سرکاری بلز کو مباحث کے بغیر منظوری دی گئی ۔ گزشتہ 7 برسوں میں کسی نے مودی حکومت سے ٹکراؤ کا تصور بھی نہیں کیا لیکن کسانوں نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ زرعی قوانین سے دستبرداری کے علاوہ دیگر مطالبات کو تسلیم کرنا پڑا۔ کسانوں کے ہاتھوں شکست سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے خلاف کارروائی کی گئی اور بعض متنازعہ بلز پیش کئے گئے ۔ اترپردیش الیکشن کے بارے میں جنون کی حد تک مودی کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک ماہ کے عرصہ میں انہوں نے 11 مرتبہ اترپردیش کا دورہ کیا اور ہزاروں کروڑ کی ترقیاتی اسکیمات کا افتتاح انجام دیا ۔ مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کا بھلے ہی دورہ نہ کیا ہو لیکن صرف ایک ریاست میں 30 دن میں 11 مرتبہ دورہ نے عوام کے ذہنوں میں سوال پیدا کردیا ہے کہ مودی ہندوستان کے وزیراعظم ہیں یا پھر اترپردیش کے ۔ وزیراعظم کے دورہ کے ساتھ میں مرکزی حکومت خزانہ کو لٹانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مرکزی بجٹ پر سارے ملک کا حق ہوتا ہے لیکن الیکشن میں کامیابی کیلئے دیگر ریاستوں کا حق یو پی کے لئے جاری کردیا گیا ۔ دورہ اور فنڈس پر اکتفا کیا جاتا تو پھر بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تو گودی میڈیا نے مودی کے ساتھ بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی ۔ روزانہ کسی نہ کسی گودی چیانل پر سروے پیش کرتے ہوئے یوگی ادتیہ ناتھ کو سبقت کے دعوے کئے گئے ۔ جس دن مودی اترپردیش میں ہوتے ، ان کے دورہ سے بی جے پی کو فائدہ کے بارے میں فرضی سروے پیش کیا جاتا تاکہ رائے دہندوں کے ذہنوں پر بی جے پی کو مسلط کیا جائے ۔ ہر چیانل پر کورونا یا اومی کرون سے متعلق خبریں یا پھر نریندر مودی کے چہرہ کے سواء کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سیاسی مبصرین نے کہا کہ ملک کیلئے تینوں بھی یکساں طور پر خطرناک ہیں ، لہذا ٹی وی چیانلس نے تینوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ مودی کے گودی چیانلس میں اپوزیشن قائدین کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے تاکہ یہ تاثر پیدا ہو کہ یو پی میں بی جے پی کی لہر ہے ۔ کسی بھی پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان پارٹی صدر کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن یہاں کمان مودی کے ہاتھ میں ہے اور پارٹی صدر جے پی نڈا کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات پر بھی اتنی توجہ نہیں دی جتنی اترپردیش پر ہے ۔ مودی کا انتخابی مہم کیلئے خود کو وقف کردینا دراصل اندرونی خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ یوگی حکومت کے خلاف بڑھتی عوامی ناراضگی نے بی جے پی قیادت میں شکست کا خوف پیدا کردیا ہے۔ اپوزیشن قائدین بالخصوص اکھلیش یادو اور پرینکا گاندھی کی کامیاب ریالیوں نے مودی کو دہلی سے یوپی منتقلی کیلئے مجبور کردیا ہے۔ بی جے پی کو ایس پی اور بی ایس پی میں ووٹ کی تقسیم سے فائدہ کا یقین تھا لیکن بی ایس پی کا وجود کمزور پڑچکا ہے اور عوام کا رجحان اکھلیش کے حق میں دکھائی دے رہا ہے ۔ دیگر چھوٹی علاقائی جماعتوں نے اکھلیش یادو سے اتحاد کرلیا ۔ اکھلیش کے چاچا کا بھتیجہ کے ساتھ ہوجانا بھی بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر چکا ہے ۔ ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے اگر ایس پی اور کانگریس مفاہمت کرلیں تو بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ کسانوں کا ایجی ٹیشن تو ختم ہوگیا لیکن لکھیم پور واقعہ ابھی بھی بی جے پی کا تعاقب کر رہا ہے ۔ مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجئے مشرا کے بیٹے نے جس طرح احتجاجی کسانوں کو گاڑی سے روند کر ہلاک کیا ، اس بارے میں سپریم کورٹ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے بی جے پی کی نیند اڑادی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب ہوں گے ، ممکن ہے کہ مودی اترپردیش میں پڑاؤ ڈال کر مہم کی قیادت کریں گے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اومی کرون کے خطرہ کے سبب انتخابات ملتوی کرنے کی سفارش کی ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ کہیں حکومت کے اشارہ پر تو نہیں ؟ کیونکہ یو پی میں بی جے پی کے لئے اچھی اطلاعات نہیں ہیں۔
پارلیمنٹ کے اجلاس کو مقررہ وقت سے قبل غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کیلئے اپوزیشن کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے حکومت کی دلچسپی کافی کم رہی۔ پارلیمنٹ کے باہر وزیرعظم اور وزیر داخلہ کی سرگرمیاں دیکھی گئی ۔ عوامی مسائل پر مباحث کی اجازت نہیں دی گئی ۔ زرعی قوانین سے دستبرداری کے مسئلہ پر حکومت نے اپوزیشن کی تنقیدوں سے بچنے کیلئے مباحث کے بغیر ہی بل کو منظوری دے دی ۔ پارلیمنٹ دراصل عوامی مسائل پر مباحث اور عوام کے حق میں قانون سازی کے لئے ہے لیکن عددی طاقت کی بنیاد پر بی جے پی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بی جے پی پارلیمانی بورڈ میں تبدیل کردیا ہے ۔ اپوزیشن کی آواز کچلنے کیلئے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے 12 ارکان کو معطل کیا گیا ۔ الغرض پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن محض ضابطہ کی تکمیل ثابت ہوا جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ دوسری طرف ملک میں نفرت کے سوداگروں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومت اور سنگھ پریوار کی سرپرستی میں مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مہم جاری ہے۔ کاشی اور متھرا کی مساجد کا مسئلہ ابھی تازہ ہے کہ اچانک ہردوار کی دھرم سنسد میں ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا گیا ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والے جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے ہندوؤں کو اُکسایا ہے کہ وہ ملک سے مسلمانوں کے خاتمہ کیلئے ہتھیار اٹھائیں۔ کھلے عام اس طرح کی اشتعال انگیزی کے باوجود مرکز اور ریاست کی خاموشی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ تمام سرگرمیاں اترپردیش کی انتخابی مہم کا حصہ ہیں ۔ ترقیاتی ایجنڈہ کے بجائے بی جے پی فرقہ پرست ایجنڈہ کی بنیاد پر کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ دھرم سنسد میں بھڑکاؤ بھاشن کرنے والے سادھوؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ ملک میں کئی مسلم قائدین اور سماجی جہد کار حکومت کی مخالفت پر ملک دشمنی اور غداری کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ قانون ہر شہری کے لئے یکساں ہونا چاہئے ۔ حکومت کو سادھوؤں کی اشتعال انگیزی کے خلاف کارروائی میں اس لئے بھی شائد دلچسپی نہیں کیونکہ وہ بی جے پی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ مساجد کے خلاف مہم اور کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی سازش ہے۔ اب جبکہ کھلے عام نسل کشی کی ترغیب دی جارہی ہے تو مسلم سیاسی و مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ حفاظت خود اختیاری کیلئے مسلمانوں میں شعور بیدار کریں۔ دستور اور قانون میں ہر شہری کو حفاظت کا حق دیا گیا ہے ۔ دہلی اور اترپردیش میں مسلم ناموں کی تبدیلی کے بعد آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے حیدرآباد کے نام کی تبدیلی کی مہم چھیڑ دی ہے۔ آر ایس ایس کو جان لینا چاہئے کہ حیدرآباد کوئی اترپردیش کا شہر نہیں کہ جہاں سنگھ پریوار کی من مانی چلائی جائے۔ حیدرآباد کے نام کی تبدیلی کی مہم کے ذریعہ آر ایس ایس اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کو مضبوط کرنے کیلئے آر ایس ایس سرگرم ہے۔ نئی شرانگیزی کا شہریان حیدرآباد بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں۔ شہر کے پرامن ماحول کو مکدر کرنے کی سازش کے خلاف حکومت کو چوکسی اختیار کرنی چاہئے۔ کے سی آر حکومت حالیہ عرصہ میں بی جے پی سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے لہذا وہ آر ایس ایس کے خلاف کارروائی میں پس و پیش کرسکتی ہے۔ سیکولرازم، مذہبی روادی اور امن و امان کی برقراری کا دعویٰ کرنے والی کے سی آر حکومت کا امتحان ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے
مگر ظالم سے ڈر جانے کا نیئں