ایتھنز: امیر یورپی ممالک نے مہاجرین کا راستہ روکنے کے لیے سرحدوں پر نگرانی کے سخت انتظامات کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ یونان میں موجود مہاجرین کا اس ملک سے نکلنا مشکل ہو چکا ہے۔ تاہم اب تارکین وطن نے ایک نیا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد البانیہ کے ہزاروں شہری ایسے تھے، جو بلوط کے جنگلات میں چھپتے چھپاتے سرحد عبور کرتے تھے اور یونان میں داخل ہو جاتے تھے۔ اب قریب چار عشرے بعد صورت حال اس کے برعکس ہو چکی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مہاجرین یونان سے اب البانیہ میں داخل ہوتے ہیں تاکہ جرمنی، اٹلی، فرانس اور سوئٹزرلینڈ جیسے امیر یورپی ممالک تک پہنچ سکیں۔مہاجرین کے لیے یونان ایک غریب ملک ہے اور 2018 کے بعد سے البانیہ کا ہموار راستہ مہاجرین کو نئی منزل فراہم کر رہا ہے۔ 69 سالہ چرواہے مشیلس تراسیاس یونان کے ایک سرحدی گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”روزانہ کئی گروپ یہاں سے گزرتے ہیں۔ ان میں شامل افراد کی تعداد سینکڑوں تک ہو جاتی ہے۔ یہاں سے البانیہ کی سرحد صرف چند سو میٹر دور ہے۔ جن کو البانوی اہلکار پکڑ لیتے ہیں، انہیں واپس یونان بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن جو نہیں پکڑے جاتے، وہ آگے نکل جاتے ہیں، انہیں پتا ہوتا ہے کہ انہیں کہاں جانا ہے۔‘‘