مہاراشٹرا اور دستور کو اہمیت

   

پرینکا چترویدی
یہ حکومت چلے گی نہیں ، دوڑے گی
سیاست ایک ایسا آرٹ ہے جو بظاہر ناممکن نظر آنے والی چیز کو ممکن بناتا ہے۔ اسی فن کو مہاراشٹرا میں سچ ہوتے ملک بھر نے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ بی جے پی کی ریاستی یونٹ نے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے ہر قانون کو توڑا اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ گودی میڈیا ان قانون توڑنے والوں کے غیردستوری حربوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کا بھرپور تعاون کیا۔
شیوسینا۔ این سی پی اور کانگریس کا باہم ملاپ اور اتحاد نے لائق ستائش کاوش کی کہ مہاراشٹرا کو اولیت دی جائے جبکہ دستور کو ان سب سے مقدم رکھا جائے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ جو جماعتیں اور لوگ ابھی تک ان کے ملاپ پر اُنگلیاں اُٹھا رہے ہیں اور شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں، انہیں یہ بات جان لینا چاہئے کہ مہاراشٹرا میں نتائج کے بعد جو کچھ جنگ جاری رہی اور جو سیاسی جوڑ توڑ جاری رہی، اس کا درحقیقت سیاست سے کچھ بھی لینا دینا نہیں یا اگر ہے بھی تو وہ نہایت قلیل ہے۔ اصلاً اس سب کا تعلق ریاست، ملک اور اس کے فاؤنڈیشن یعنی جمہوریت سے ہے، بی جے پی حکومت نے جس خاموشی سے رازداری سے صبح کی اولین ساعتوں میں حلف لیا تھا تو ان سے متعلق اداروں میں موجود افراد جن پر اعتماد تھا، سوالات اُٹھنے لگے۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ گورنر نے جس طرح ساری رات کام کرتے ہوئے ایک ایسی حکومت تشکیل دینے میں تعاون کیا تھا جس کے پاس تشکیل حکومت دینے کے لئے درکار وزراء کی تعداد موجود ہے یا نہیں اور جو لوگ گورنر کی حمایت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گورنر کا کام نہیں کہ وہ تنقیح (چیک) کرے تو پھر گورنر کا کام یہ کیسے ہوگیا کہ وہ چوری چھپے حلف برداری میں حصہ لے جبکہ دوسری اہل پارٹیوں کو وقت دینے سے انکار کردے؟ اس تناظر میں جمہوریت میں گورنر کے کردار کا بہ نظر غائر تجزیہ ہونا چاہئے۔
کبھی کبھار ہی استعمال ہونے والے رول ۔12 کا استعمال اس قدر جلدی میں کیا گیا کہ نوٹیفکیشن صدرجمہوریہ کی دستخط کے بغیر اَپ لوڈ کردیا گیا۔ ملک نے ایسی ہی مثالیں سابق میں اروناچل پردیش، اتراکھنڈ، گوا، میگھالیہ اور کرناٹک میں دیکھی گئی تھیں۔
اس سارے کھیل میں قوم نے دیکھا کہ جب کبھی جمہوریت کو کوئی بھی ایسا سادہ ٹسٹ کا سامنا کرنے کی ضرورت پیش آئی تو تمام جمہوری، دستوری روایات کو پامال کردیا گیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرتے ہوئے دستور کی دھجیاں اُڑانے پر سخت سرزنش اس انداز میں کی کہ بالآخر چیف منسٹر کے عہدہ سے دیویندر فڈنویس کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ جب بی جے پی نے تشکیل حکومت سے اپنی ناکامی کا کھلے عام اظہار کیا جس کو گورنر نے سب سے پہلے تشکیل حکومت کی دعوت دی تھی۔ بعدازاں پوری شان سے شیوسینا حرکت میں آئی اور تشکیل حکومت کے لئے این سی پی اور کانگریس سے مخلوط حکومت کے لئے بات چیت کی۔
اپنے تمام اختلافات کو بازو میں رکھتے ہوئے مذکورہ دونوں پارٹیوں کے صدور شرد پوار اور سونیا گاندھی نے ایک تاریخی قدم اُٹھاتے ہوئے مفاہمت کی جو ریاست میں بی جے پی حکومت کا بہترین متبادل ہے۔
تینوں پارٹیوں کا آئیڈیالوجی میں مختلف الخیال ہونا بھی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، اس لئے کہ تینوں پارٹیوں کا مشترکہ اقل ترین پروگرام کی بنیاد پر ہی وضع کیا گیا ہے۔ تینوں پارٹیوں مہاراشٹرا کو اول اور دستور (ہند) کو سب سے مقدم رکھیں گے۔
حکومت کی سب سے زیادہ توجہ کسانوں کی دیکھ بھال، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، تحفظ خواتین۔ علاوہ ازیں تعلیم، صحت اور گھر سب کے لئے پر مرکوز کئے جائیں۔
شیوسینا اور کانگریس کا حکومت کیلئے جمع ہونا ہندوستان کی تاریخ میں بالکل پہلی مرتبہ ہے۔ تاہم تاریخ ہند یہ بتاتی ہے کہ دونوں میں مفاہمت ہمیشہ سے اچھی ہی رہی ہے۔
شیوسینا نے کانگریس کے مرلی دیورا کی حمایت کی تھی تاکہ وہ میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیں۔ یہی نہیں بلکہ شیوسینا نے یو پی اے کے صدارتی امیدواروں پرنب مکرجی اور پرتبھا پاٹل کی حمایت کی تھی۔
سابق کانگریسی چیف منسٹر اے آر انتولے اور آنجہانی بالا صاحب ٹھاکرے کے درمیان اٹوٹ رشتہ کو کون بھول سکتا ہے کہ ایک مرتبہ انتولے نے اپنے آپ کو ’’شیوسینک‘‘ قرار دیا تھا۔ آنجہانی بالا صاحب ٹھاکرے نے اندرا گاندھی سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیوسینا کمپیوٹرس کو جس وقت ملک میں لانا چاہتی تھی جبکہ بی جے پی نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔ شیوسینا نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی کی مخالفت میں آواز بلند کی تھی۔
این سی پی اور شیوسینا نے اگرچہ سیاسی طور پر مل جل کر کام نہیں کیا (یعنی مخلوط حکومت)، تاہم دونوں پارٹیوں کے صدور اور ان کے خاندان آپس میں نہایت گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔
سال 2006ء میں جب سپریہ سولے نے راجیہ سبھا کیلئے مقابلہ کیا تھا تو بالا صاحب ٹھاکرے نے اس مقابلہ میں اپنی طرف سے نامزدگی داخل نہیں کی۔ جب ادھو ٹھاکرے نے حلف لیا تھا، سپریہ سولے نے ٹوئٹ کیا کہ وہ بالا صاحب ٹھاکرے اور مینا ٹھاکرے کو اس یادگار موقع پر بہت زیادہ دل سے یاد کیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دونوں علاقائی پارٹیوں نے قدیم اختلافات کو بھلاکر مہاراشٹرا میں بہتر حکومت آئے اور عوام کا بھلا کرے۔ وزیراعظم نریندر مودی، شہرت کا گراف اونچا ہونے سے خوش کن زندگی گزار رہے ہیں، مودی کی (بی جے پی) پارٹی اقتدار کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ اپنا رہی ہے جس کی ستائش نہیں کی جاسکتی۔ مہاراشٹرا میں انتخابات میں بی جے پی کی اخلاقی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ اگر وہ (بی جے پی ) بحیثیت اپوزیشن بہتر کردار ادا کرے تو شاید اس بی جے پی کی کھوئی ہوئی عزت واپس آسکتی ہے اور اس کا وقار واپس حاصل ہوسکتا ہے۔ آج بی جے پی دوسروں کو اعداد و شمار پر حکومت بنانے اور میرٹ سے خالی حکومت بنانے کا الزام عائد کررہی ہے، اب جبکہ بی جے پی کی شہرت ڈسمبر 2017ء میں 70% سے نومبر 2019ء میں 40% پر گر چکی ہے، بی جے پی کو ضرورت ہے کہ وہ اپنی سیاسی تدبیر اور حکمت عملی سے اپنے طویل مدتی حامیوں سے تال میل بنائے رکھے اور جو یہ کہتے ہیں کہ یہ تین پارٹیوں کا اتحاد چل نہیں سکے گا، وہ سب سے بڑی غلطی کررہے ہیں۔اور جو کرناٹک اتحاد کی مثال سامنے رکھ کر اس اتحاد کو قیاس کررہے ہیں، انہیں جان لینا چاہئے کہ کرناٹک کے معاملے میں مقامی قائدین کی چاہت کے مطابق اس میں پارٹیاں موجود نہیں تھیں۔
تاہم مہاراشٹرا میں تمام تینوں پارٹیوں کے سوائے چند ایک کے اراکین اسمبلی شامل ہیں اور جن کے ذہن میں ایک مستحکم حکومت بنانا مقصد ہے اور جس کیلئے وہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ ایوان میں اپنی اکثریت اور استحکام ثابت کیا۔ چیف منسٹر کا ایوان میں واضح خطاب نے ظاہر کردیا کہ حکومت کی نیت ٹھیک ہے اور یہ بھی حکومت عوام کیلئے، عوام کی، عوام کے ذریعہ اور مہاراشٹرا کے عوام کیلئے ہے۔