مہاراشٹرا اور ہریانہ کے انتخابی نتائج کانگریس کیلئے اچھی شروعات: پونالا لکشمیا

   

دفعہ 370 اور حساس مسائل کا بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، رائے دہندے باشعور
حیدرآباد۔ 24 اکٹوبر (سیاست نیوز) سابق صدر پردیش کانگریس پونالا لکشمیا نے مہاراشٹرا اور ہریانہ کے انتخابی نتائج کو ملک میں کانگریس کے لیے اچھی شروعات سے تعبیر کیا۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پونالا لکشمیا نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے دونوں ریاستوں میں حساس مسائل جیسے کشمیر کے خصوصی موقف کی برخاستگی کو انتخابی موضوع بنایا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد ٹھکانوں پر حملوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اس کے باوجود دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو کم نشستیں اور کم ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکمرانی سے عوام ناراض ہوچکے ہیں کیوں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ وعدوں کی تکمیل میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ پونالا لکشمیا نے کہا کہ ملک میں بی جے پی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ دیش بھکتی کے نام پر بی جے پی نے پرچار کیا تھا لیکن عوامی مسائل کو نظرانداز کردیا گیا۔ 2014ء میں فی کس 15 لاکھ روپئے، نوجوانوں کو ملازمت اور قیمتوں میں کمی جیسے وعدے کئے گئے تھے لیکن ایک بھی وعدے کی تکمیل نہیں کی گئی۔ برخلاف اس کے معاشی صورتحال ابتر ہوچکی ہے اور عوام پر زبردست بوجھ عائد ہوچکا ہے۔ معاشی بدحالی کے نتیجہ میں ملک میں سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام بی جے پی سے دور ہورہے ہیں اور کانگریس سے قربت حاصل کررہے ہیں جو اچھی شروعات ہے۔ عوام کو بی جے پی کے وعدوں پر بھروسہ نہیں رہا۔ کانگریس اقتدار میں ہو یا پھر اپوزیشن میں وہ ہمیشہ عوام کے درمیان رہی اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کئے گئے۔ حضورنگر میں ٹی آر ایس کی کامیابی کو بے قاعدگیوں سے حاصل کی گئی جیت قراردیتے ہوئے پونالا لکشمیا نے کہا کہ مسلمانوں سے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دلتوں کو فی کس 3 ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کا وعدہ بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی چنائو میں عام طور پر نتائج برسر اقتدار پارٹی کے حق میں ہوتے ہیں لہٰذا حضورنگر کے نتیجے سے کانگریس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں کانگریس پارٹی مستحکم ہے اور دوبارہ برسر اقتدار آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ شکست کی وجوہات کا پارٹی فورم میں جائزہ لیتے ہوئے مستقبل میں پارٹی کے استحکام کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ انہوں نے حضورنگر کی شکست کے لیے کسی بھی قائد کو ذمہ دار قرار دینے سے گریز کیا۔