گورنر اور صدارتی عہدوں کا بیجا استعمال، اقتدار کی ہوس میں بی جے پی کچھ بھی کرنے تیار
ممبئی ، 23 نومبر ( سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی اور اُس کے سرکردہ قائدین بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کہیں بھی اقتدار گنوانا ہرگز نہیں چاہتے بلکہ وہ تو ایسی ریاستوں میں تک پارٹی حکومت کے منصوبے بنا رہے ہیں جہاں اُن کا کوئی ایم پی تک نہیں ہے۔ جب اقتدار کی ہوس ایسی ہو تو وہ مہاراشٹرا میں ہم نظریہ شیوسینا کے ساتھ پانچ سال حکمرانی کرنے کے بعد دوبارہ اپنی حکومت نہ بننے کو کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی قیادت کیلئے جمہوریت کا قتل معمولی بات ہوگئی ہے۔ وہ پہلے بھی کئی ریاستوں میں یہ کام کرچکے ہیں، جیسے گوا، منی پور، جموں و کشمیر وغیرہ۔ اس کام کیلئے جن جن دستوری عہدوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت پڑتی ہے وہ پہلے ہی اپنے اسے یقینی بناچکے ہیں۔ عاملہ، عدلیہ کے بشمول لیفٹننٹ گورنر و گورنر سے لے کر صدرجمہوریہ تک ہر جگہ بی جے پی یا اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ اشخاص فائز ہیں۔ مودی اور شاہ کو بخوبی اندازہ ہے کہ اگر حکومت مہاراشٹرا ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو بہت مشکل پیش آئے گی۔ چنانچہ وہ 24 اکٹوبر کو انتخابی نتائج کے اعلان کے روز سے ہی بی جے پی کی اقتدار پر واپسی کو یقینی بنانے کی تیاریوں اور منصوبوں میں جٹ گئے تھے۔ جمعہ کی شب جیسے ہی شرد پوار نے اعلان کیا کہ صدر شیوسینا اُدھو ٹھاکرے کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت بہت جلد تشکیل پانے والی ہے، وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب ان کیلئے غیرمعمولی حرکت میں آنے کا وقت آچکا تھا، جس میں انھوں نے نہ پس و پیش کی نہ ان کو پشیمانی محسوس ہوئی۔ راتوں رات گورنر نے صدر راج کی تنسیخ کیلئے رپورٹ مرکز کو بھیج دی جسے صدرجمہوریہ سے رجوع کیا گیا اور پھر صبح میں دیویندر فڈنویس کو دوبارہ چیف منسٹر اور باغی این سی پی لیڈر اجیت پوار کو نئے ڈپٹی سی ایم کا حلف دلایا گیا۔ مودی اور شاہ کو ایسی ممکنہ صورتحال کا شاید اسمبلی الیکشن سے قبل بھی اندازہ تھا۔ چنانچہ بعض اقدامات کو اسی حکمت عملی کی کڑی مانا جاسکتا ہے۔ انتخابی مہم سے قبل مودی حکومت نے این سی پی قائدین اجیت پوار، شرد پوار اور پرفل پٹیل کے خلاف کرپشن الزامات کے ساتھ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے زبردست دباؤ میں ڈالا۔ جب معلق اسمبلی وجود میں آئی تو انھوں نے شیوسینا کا چیف منسٹرشپ کا مطالبہ ماننے کے بجائے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی مدد سے تشکیل حکومت کے سارے عمل کو لیت و لعل میں ڈالا۔ پھر رسمی اقدامات کے بعد گورنر کی رپورٹ پر مرکز نے صدر راج کی سفارش کردی اور صدررامناتھ کووند نے دستخط میں کوئی دیری نہ کی۔ پھر جب سینا، این سی پی ، کانگریس کا مخلوط تیار ہوگیا تو اجیت پوار کو ساتھ لے کر اسی تیزی سے صدر راج برخاست کرایا۔