مہاراشٹرا میں جمہوری تماشہ ’’عوام گئے چولھے بھاڑ میں‘‘

   

غضنفر علی خان
ملک کی معاشی صورتحال میں اہم رول ادا کرنے والی ریاست مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کے بعد حکومت بنانے کیلئے ایک ماہ کا عرصہ لگ گیا اور اس دوران سیاسی پارٹیوں نے بے حد بے اصولی اور بے قاعدگی کا مظاہرہ کیا ۔ انتخابی نتائج کی روشنی میں اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے بی جے پی منتخب ہوئی ، اس کے بعد شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور کانگریس پارٹی نے مقام حاصل کیا ، ان تمام پارٹیوں نے ان تمام اُصولوں کو دفن کردیا جو جمہوریت میں اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ 288 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی ، اس پارٹی ننے حکومت سازی کا دعویٰ کیا ۔ بی جے پی کی حریف جماعت شیوسینا نے اس دعویٰ کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس مرتبہ چیف منسٹر کا عہدہ شیوسینا کو ملنا چاہئے، ’’عوام گئے چولھے بھاڑ میں‘‘ کے مصداق اس مطالبہ پر شیوسینا اتنی اٹل رہی کہ قبل از انتخابات ہوئی مفاہمت دم توڑگئی ۔ دوسری طرف بی جے پی نے عددی کھیل شروع کردیا ، پھر کیا تھا مختلف دوسری پارٹیوں کے ساتھ ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہوگیا ۔ شرد پوار نے ان حالات میں کانگریس پارٹی اور شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈرس سے ملاقاتیں شروع کردی، کانگریس پارٹی کے لئے یہ اہم فیصلہ تھا کہ اس نے اپنے تمام سیکولر کردار کو بالائے طاقت رکھتے ہوئے آخر کار شیوسینا سے بھی مفاہمت کرنے اور اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر رضامندی ظاہر کی۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے کانگریس کو شیوسینا سے قریب کرنے میں اہم رول ادا کیا ، اس سارے ڈرامے میں عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہر پارٹی نے ویلن کا رول ادا کیا ۔ اس میں کوئی ہیرو نہ بن سکا کیونکہ سب ہی نے اپنے نظریہ سے فرار اختیار کرتے ہوئے صرف اقتدار کی دیوی کے چرنوں میں پناہ لی ، اس وقت مہاراشٹرا میں ایک ایسی مخلوط حکومت ہے جس میں بے حد مختلف سیاسی فکر اور نظریات رکھنے ولی جماعتیں شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مختلف الخیال کے باوجود یہ حکومت کتنے عرصہ تک قائم رہے گی، اگر حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت کو پورا کیا تو یہ مہاراشٹرا کی تاریخ میں ایک عجوبہ سمجھا جائے گا ۔ اس ایک ماہ تک جاری رہنے والے ڈرامہ میں کسی پارٹی نے کوئی اصولی موقف اختیار نہیں کیا ،

کانگریس پارٹی نے بڑے تذبذب کے بعد شیوسینا کے ساتھ اقتدار کا حصہ دار بننے کیلئے مثبت موقف اختیار کیا کیونکہ بہر صورت کانگریس پارٹی اپنے کمزور عددی موقف کے باوجود کسی صورت میں مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت بننے دینا نہیں چاہتی تھی ، کم از کم کانگریس کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ایسی حکومت میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے کانگریس پارٹی کو مستقبل میں کیا دشواریاں ہوں گی ۔ نیشنلسٹ کانگریس پار ٹی بنیادی طور پر کانگریس سے علحدہ کوئی جماعت نہیں ہے کیونکہ اس کی سیاسی فکر بھی بڑی حد تک اصل کانگریس سے ملی جلی ہے ۔ شرد پوار خود بھی ماضی میں ایک با اثر کانگریس لیڈر تھے اور آنجہانی اندرا گاندھی کی کابینہ میں ایک اہم وزارت پر فائز رہے ۔ دراصل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کانگریسی ذہن رکھنے والے لیڈرس پر مشتمل ایک جماعت ہے اس کا بھی شیوسینا کے ساتھ ملاپ کوئی اصولی وجود نہیں رکھتا ۔ البتہ اصولی طور پر شرد پوار کا گروپ بی جے پی کے فلسفہ اور سیاسی فکر کے اعتبار سے بی جے پی کا سخت مخالف ہے ۔ بہرحال مہاراشٹرا کی یہ ملی جلی سرکار ایک ایسا مرکب ہے جو کبھی بھی بکھر سکتا ہے ، صرف ایک چیز ان سیاسی پارٹیوں کو متحد رہنے پر مجبور کرسکتی ہے ، وہ اقتدار کا نشہ و لالچ ہی رہے گا۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں عوامی مسائل اور ان کے حل سے فرار اختیار کرتے ہوئے صرف اقتدار کی ہوس کا شکار ہیں، ان کے سیاسی نظریات موم سے بنے ہوئے سانچوں کے مانند ہیں جو حالات کی معمولی سی حرارت سے پگھل جاتے ہیں اور جس ملک میں جیسا کہ ہمارا اپنا خود ملک ہے ، اقتدار تو ایک بھٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں فولاد کی بنی ہوئی چیزیں بھی آسانی کے ساتھ پگھل جاتی ہیں ، مزید تماشہ یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی بی جے پی ایسے کسی اصول کو جو اقتدار حاصل کرنے میں ذرا سی رکاوٹ بنے قبول نہیں کرتی ۔ پچھلے چند برسوں میں بی جے پی کے لیڈرس نے اقتدار کے حصول کی خاطر کئی اہم اور کلیدی و دستوری اداروں کو اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کیلئے استعمال کیا ۔ گورنر کا عہدہ بھی اس کا شکار ہوچکا ہے ، گوا ، منی پور کی حکومت بنانے میں بی جے پی نے اس عہدہ کا غلط استعمال کیا اور یہی کوشش مہاراشٹرا میں بی جے پی نے کی ، گورنر مہاراشٹرا گویا ایک اسٹامپ ہے اور دہلی سے جو بھی حکم ہوتا ہے من و عن اس کے مطابق گورنر کام کرتا ہے۔ مہاراشٹرا میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے حکومت بنانے کی دعوت گورنر نے ہی دی تھی جبکہ قاعدہ کے مطابق اگر حکومت بنانے کے لئے اعداد و شمار بی جے پی کے پاس نہیں تھے تو دوسری بڑی جماعت کو یا جماعتوں کے گروپوں کو یہ کام سونپا جانا چاہئے تھا ۔ شیوسینا، کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس کو عملاً یہ موقع نہیں دیا گیا کیونکہ دہلی سے یہ حکم تھا کہ کسی صورت میں بی جے پی کو سرکار بنانے کا موقع دیا جائے لیکن بی جے پی اس موقف میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ آناً فاناً گورنر مہاراشٹرا کوشیاری نے صدر راج نافذ کردیا حالانکہ اس حکم کی اجرائی تک شیوسینا اور دوسری جماعتوں نے اپنی اکثریت کا ثبوت پیش کردیا تھا لیکن ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق گورنر موصوف دہلی سے احکامات کے منتظر تھے ۔ بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی اور بی جے پی کے موقف کے خلاف تینوں جماعتیں متحد ہوکر قانونی جدوجہد شروع کردی ۔ ایک مرحلہ پر اس تماشاکا تیسرا Episode اور بھی سنسنی خیز رہا ، یہ سب تماشہ ہوتا رہا لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ دہلی میں بیٹھ کر بدلتے ہوئے حالات کا صرف لطف اٹھاتے رہی جبکہ مہاراشٹرا میں جمہوریت اور اس کے بنیادی اصولوں کا خون خرابہ کیا جاتا رہا ، ایک اور مرحلہ پر اپنا عددی موقف شیوسینا اور اس کی موجودہ حلیف جماعتوں نے ثابت کردیا ، انہیں 288 رکنی اسمبلی میں 162 نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس کا مظاہرہ ممبئی کی گرانڈ حیات ہوٹل میں زبردست طور پر کیا گیا اب بی جے پی کیلئے کوئی غور نہیں تھا چنانچہ چیف منسٹر کی حیثیت سے فڈنویس نے انتہائی ناگواری کے ساتھ اپنے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا ان کو زبردستی کسی قانونی اور دستوری جواز کے گورنر نے حکومت سازی کا پروانہ دیا تھا ، وہ عوام کے منتخبہ چیف منسٹر ہرگز نہیں تھے بلکہ گورنر کے نامزد کردہ چیف منسٹر تھے، چنانچہ انہوں نے خاموشی کے ساتھ استعفیٰ پیش کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور جان بچاکر چیف منسٹر کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے ، اسی دوران وزیراعظم اور امیت شاہ نے خوب کھیل کھیلا، ان تمام چیزوں کا گہری نظر سے سپریم کورٹ جائزہ لیتا رہا ، ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی اس میں پہلے ہی مداخلت کرنی چاہئے تھی اور صدر راج کے نفاذ کو کالعدم قرار دینا چاہئے تھا لیکن آخری وقت تک سپریم کورٹ اپنے قانونی موقف کی حفاظت کرتا رہا۔ اب جبکہ کہ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد مہاراشٹرا میں حکومت بن گئی ہے ، بظاہر اس وقت حکومت تو بن گئی لیکن اس کی پائیداری اب بھی مشکوک ہے۔ چنانچہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی ایک بار پھر ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا کاروبار شروع کردے ، اصل میں عدالت کو بی جے پی پر قانوناً یہ حکم لگانا چاہئے کہ عوام کے منتخب کردہ ارکان کی بنائی ہوئی حکومت کسی اور سیاسی کھیل کا شکار نہ ہو، اس معاملہ میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ پر خاص نظر رکھنی پڑے گی کیونکہ وہ صرف عددی موقف کی بنیاد پر کسی بھی ریاست میں اپنی پارٹی کی حکومت بنانا چاہتے ہیں ، ان حالات میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک کی سیاست کی کمیاء بدل رہی ہے ۔ مہاراشٹرا نے اس کی مثال قائم کی ہے کہ نہ صرف مختلف الخیال پارٹیوں کی مفاہمت ہوسکتی ہے بلکہ مفاہمت کیلئے کوئی بھی عذر کام آسکتا ہے ۔ شیوسینا اور بی جے پی بالکل ہوشیار جماعتیں تھیں لیکن برا ہو اقتدار کے لالچ کا کہ اس نے دونوں فرقہ پرست جماعتوں کو اختلافات کا شکار بنادیا یعنی اقتدار اور اس کے لئے سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی اس نئی سیاسی تبدیلی پر عمل کرسکتی ہیں۔