مہاراشٹرا میں شنڈے کا انکاؤنٹرپولیس اور حکومت سوالات کے گھیرے میں

   

روش کمار
آج کل مہاراشٹرا میں پیش آیا انکاؤنٹر کا ایک واقعہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اپوزیشن سے لے کر سماجی جہدکار سب کے سب پولیس پر اُنگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی یوپی کی طرح انکاؤنٹر کو لے کر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کیا حکومت یہی چاہتی ہے کہ پولیس کا انکاؤنٹر فرض سمجھا جائے تاکہ وہ عوام کو یہ یقین دلاسکے کہ مجرمین کا اسی طرح خاتمہ کرکے وہ فوری انصاف دلانے میں یقین رکھتی ہے اور اس بارے میں اپنے عہد پر قائم ہے۔ انھیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ انکاؤنٹر فیک لگتا ہے یا نہیں یا پولیس کی کہانی میں کتنے جھول ہیں۔ اس کا فائدہ اسی میں لگتا ہے کہ لوگ مذہب اور ذات پات کے بہانے انکاؤنٹر کو انصاف کا ایک طریقہ مان لیں۔ ہمارے نیتا کسی راجہ کی طرح انصاف، عدالت، قانون سب کی کرسی پر خود ہی بیٹھ جانا چاہتے ہیں۔ اس انکاؤنٹر کے بعد فڈنویس کے حامی ایسے پوسٹرس جاری کررہے ہیں کہ یہ دیوا کا انصاف ہے۔ مہاراشٹرا میں فڈنویس کو دیوا کہتے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل گیا ہے۔ اس پوسٹر میں لکھا ہے کہ مہاراشٹرا میں مہا وکاس اکھاڈی کی حکومت نہیں اب دیوا بھاوکی حکومت ہے! اس کا کیا مطلب؟ شنڈے چیف منسٹر ہیں تو حکومت شنڈے حکومت کہلائے گی لیکن اس انکاؤنٹر سے لگتا ہے کہ دیویندر فڈنویس کو عوام کے پاس جانے کا جیسے حق مل گیا ہے۔ ایک انکاؤنٹر سے ایک نیتا کی شبیہہ کیا اتنی پرکشش اور طاقتور و بااثر ہوجاتی ہے؟ مہاراشٹرا کے بدلہ پور معاملہ میں ملزم اکھشے شنڈے کا انکاؤنٹر کیا دیویندر فڈنویس کیلئے شبیہ سدھارنے کا پروگرام بن گیا ہے۔ اکھلیش یادو یا آدتیہ ٹھاکرے کے فیک انکاؤنٹر کہنے پر کیوں یوگی آدتیہ ناتھ یا دیویندر فڈنویس ایک بار بھی نہیں کہتے کہ کوئی ثابت کردے یا اگر فرضی انکاؤنٹر کا شبہ ہے تو تحقیقات کروائیں گے بلکہ اُلٹا اکھلیش یادو یا آدتیہ ٹھاکرے پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ وہ مجرمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دیویندر فڈنویس ڈپٹی چیف منسٹر ہیں، وہ بھی فیک انکاؤنٹر کہے جانے پر پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر انکاؤنٹر کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اُدھر ایکناتھ شنڈے کا خیمہ اس انکاؤنٹر پر اپنی چھاپ چپکانے میں لگا ہے۔ بالا صاحب ٹھاکرے کا بیان وائرل کرایا جارہا ہے کہ کیسے وہ ریپ کیس کے مجرم کو اُڑا دینے کی وکالت کرتے تھے۔ ہم اُس ویڈیو کی توثیق تو نہیں کرسکتے لیکن اسے وائرل کرایا جارہا ہے جس میں بال ٹھاکرے یہ کہتے ہوئے سنے جارہے ہیں کہ ایک مہیلا کا ریپ ہورہا ہے تمہارے ہاتھ میں پستول ہے تم کیا کرو گے؟ کیا پستول وہیں رکھو گے، اسے گولی مارو اور ختم کردو۔ مہاراشٹرا کے بدلہ پور میں ایک اسکول کی دو کمسن طالبات پر جنسی حملہ کے معاملہ میں اکھشے شنڈے کو گرفتار کیا گیا۔ 24 سال کے اکشے شنڈے کو عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں ملے گا کیوں کہ اس کا انکاؤنٹر کردیا گیا۔ اکشے شنڈے کو لے کر پہلے یہ کہانی بنائی گئی کہ اس نے پولیس کی بندوق سے خودکشی کی، بعد میں جانکاری آتی ہے کہ وہ پولیس کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ پولیس سے ہتھیار چھینتا ہے اور پولیس کو مدافعت اور سیلف ڈیفنس میں گولی چلانی پڑتی ہے جس میں اکھشے شنڈے مارا جاتا ہے۔ مگر سوال اُٹھ رہے ہیں کہ ملزم اکشے شنڈے نے ہتھیار کیسے چھینے؟ کیا اُسے ہتھکڑی نہیں پہنائی گئی تھی۔ کیا اُسے پستول چلانے آتی تھی؟ دی فری پریس جرنل میں صحافی گوتم منگلے نے لکھا ہے کہ اکشے شنڈے نے پولیس سے پستول کیسے چھین لی دوسرے پولیس والے اُس وقت کیا کررہے تھے؟ ہر پولیس والے کو ایک ڈوری فراہم کی جاتی ہے جس کے ساتھ ریوالور بندھا ہوتا ہے، اس دوری کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ پستول گر نہیں سکتی نہ کوئی چھین سکتا ہے۔ مہاراشٹرا پولیس نے برسوں پہلے جو عصری HOLSTER خریدے تھے اُنھیں اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ HOLSTER پہننے والوں کے علاوہ کوئی بھی بندوق نہیں چھین سکتا تو پھر اکشے نے پولیس سے ہتھیار کیسے چھین لئے۔ ملزم اکشے شنڈے کے گھر والوں نے پولیس کے خلاف اب سوال اُٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے کبھی دیپاولی میں پٹاخے نہیں جلائے اور وہ کسی کو گولی نہیں مار سکتا۔ انھوں نے حکومت سے پورے معاملہ کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان سوالوں کی پرواہ کسے ہے۔ عدالتوں نے انکاؤنٹر معاملہ میں کتنے ہی سخت رہنمایانہ خطوط جاری کئے پھر بھی پولیس اور حکومت انکاؤنٹر کے Fake بنانے پر بھی کریڈٹ لینے سامنے آجاتے ہیں۔ انہیں کوئی افسوس نہیں ڈر نہیں۔ مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں کولکتہ کی طرح بدلہ پور میں دو بچیوں کی جنسی ہراسانی معاملہ کو لے کر شنڈے حکومت پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اکشے شنڈے انکاؤنٹر میں زخمی پولیس والے سے ایکناتھ شنڈے شیوسینا کے لیڈر اور مقامی لیڈران اسپتال میں مل رہے ہیں اور گلدستہ دے رہے ہیں اور امن و قانون کی صورتحال کو لے کر شنڈے حکومت کی سختی کی بات کررہے ہیں۔ پولیس کی کہانی کے مطابق زخمی پولیس والے کے پاؤں میں گولی لگی ہے۔ پولیس کی کئی کہانیوں میں پاؤں میں گولی لگنے کا ذکر سنا ہوگا، ہر ریاست میں شنڈے سینا کے نیتا اپنے ویڈیو کے ذریعہ اپنی حکومت کی شبیہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پولیس سے ملی معلومات کے مطابق پولیس نے ملزم کو پیر تقریباً 5.30 بجے تلوجہ جیل سے نکال کر پولیس اسٹیشن لے جارہی تھی۔ تقریباً 6 بجے ممبرا بائی پاس کے قریب ملزم نے پولیس کے پستول کو چھین کر تین راؤنڈ فائرنگ کردی جس میں سے ایک گولی پولیس اہلکار نلیش مورے کے بائیں پاؤں میں لگ گئی جس کے بعد ایک اور پولیس اہلکار نے ملزم کو گولی مار دی۔ بعد میں اسپتال جاتے جاتے اس کی موت ہوگئی۔ اس پورے معاملہ میں ریاستی چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے اور وزیرداخلہ دیویندر فڈنویس نے میڈیا کو تفصیلات بتائیں۔ اس معاملہ میں پولیس نے جب پریس نوٹ جاری کیا، اُس میں ملزم پر گولی چلانے والے پولیس اہلکار کا نام بھی نہیں لکھا۔ بعد میں جانکاری ملی کہ گولی چلانے والے کا نام پولیس انسپکٹر سنجے شنڈے ہے جو ماضی میں بدنام زمانہ پولیس عہدہ دار یا انکاؤنٹر اسپشلسٹ پردیپ شرما کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ ایک اور جانکاری ہے کہ سنجے شنڈے کو ایک بار ایک ملزم کو بھگانے کے معاملہ میں معطل کیا جاچکا ہے لیکن 2014 ء میں ممبئی پولیس نے سنجے شنڈے کو پھر سے بحال کردیا تھا۔ ٹوئٹر پر بھی ماحول بنایا جارہا ہے کہ انکاؤنٹر کرکے صحیح کیا گیا، ایسے کئی ٹوئٹس آپ کو مل جائیں گے جن میں لکھا جارہا ہے کہ مہاراشٹرا میں کانگریس ۔ این سی پی ۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے نے اکشے شنڈے کے انکاؤنٹر کو فرضی کہا ہے۔ این سی پی سربراہ شردپوار نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ بدلہ پور میں دو بچیوں کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی اس سے قانون کے دائرہ میں نمٹنا چاہئے تھا لیکن اس واقعہ کے کلیدی ملزم کے تبادلہ میں وزارت داخلہ کی جانب سے بڑھتی گئی ڈھیل سوالات کے گھیرے میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت قانون کی دھمکی دینے میں کمزور ہوگئی ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے جرم کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ اُمید ہے کہ اس واقعہ کی جانچ سے حقیقی صورتحال سامنے آئے گی۔ شیوسینا رکن اسمبلی آدتیہ ٹھاکرے نے بھی اس معاملہ پر ٹوئٹ کیا ہے اور کئی سوال اُٹھائے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ بدلہ پور اسکول کے ٹرسٹی کہاں ہیں، انھیں بی جے پی ۔ شنڈے حکومت کی جانب سے تحفظ کیوں فراہم کیا جارہا ہے۔ شنڈے کے مقامی آدمی کے بارے میں کیا واہن مہاتر نے ایک صحافی سے سوال کیاکہ وہ اس واقعہ پر ایسے سوال کیوں اُٹھارہے تھے جیسے کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا ہو جیسے کہ اسے بچایا جارہا ہے۔ تیسرا سوال احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف درج مقدمات واپس لئے جائیں گے۔ ان کے ساتھ غنڈوں جیسا سلوک روا رکھا گیا، وہ تو بس پولیس کی جانب سے ایک ہفتہ تک معاشرہ لڑکیوں کے سرپرستوں کی شکایت درج کرنے سے انکار کرنے کی مخالفت کررہے تھے۔ اس کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ پولیس اسٹیشن کیس کی حفاظت کررہا تھا؟ مانا جارہا ہے کہ اسکول کے ٹرسٹی بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں اور انھیں بچایا جارہا ہے۔ کیا یہ سچ ہے کیا انتظامیہ جواب دے گا؟ اپوزیشن کے مطابق اگر شنڈے اتنا بڑا مجرم تھا یا بااثر تھا تو اسے منتقل کرتے وقت پولیس نے زیادہ سے زیادہ چوکسی کیوں نہیں برتی تھی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی ہونے کے باوجود کوئی ملزم پولیس کی کمر سے پستول نکالتا ہے اور وہ گولی چلا دیتا ہے۔ یہ بات کیسے مان لی جائے کہ پولیس کی طرف جب وہ گولی چلاتا ہے تو وہ گولی پیر پر لگتی ہے لیکن پولیس جب گولی چلاتی ہے تب وہ سیدھے اکشے شنڈے پر لگتی ہے اور اکشے شنڈے کی ماں اور بھائی ان دونوں نے 15 دن پہلے جو بیان دیا تھا اس میں کہا تھا کہ اس واقعہ میں اکیلا اکشے شنڈے ملوث نہیں ہے اور بھی کچھ لوگ ہیں، یہ بات کیوں نظرانداز کی جارہی ہے اور ایک بات اسکول سے جڑے لوگ اب بھی فرار ہیں، انھیں کیوں نہیں پکڑا گیا۔ کیا آپٹے کو کبھی نہیں پکڑا جائے گا۔ یہ سارے معاملہ کو لے کر پہلے دن سے ہی پولیس کی حرکت مشتبہ رہی ہے اور اس لئے ہم مانگ کرتے ہیں کہ اس سارے معاملہ میں انکاؤنٹر کے وقت جتنے بھی پولیس والے تھے جنھوں نے پوری طرح چوکسی نہیں برتی تھی انھیں بھی معطل کیا جائے اور اس معاملہ سے جڑے ہر فرد کا نارکوٹک ٹسٹ ہو، سی بی آئی کی جانچ ہو، جس طرح یوپی میں انکاؤنٹر کے واقعات میں اضافہ ہوا اسی طرح مہاراشٹرا کے لئے بھی انکاؤنٹر کوئی نئی بات نہیں ہے۔