پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
موجودہ ریاست مہاراشٹرا کی معمار کانگریس ہے اور ملک کی اس قدیم ترین سیاسی جماعت نے نہ صرف مہاراشٹرا کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کے دارالحکومت ممبئی کو ملک کے اقتصادی دارالحکومت میں بھی تبدیل کیا (یہ اور بات ہیکہ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت میں زیادہ تر ترقیاتی پراجکٹس وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات کو حالیہ عرصہ کے دوران منتقل کئے گئے) بہرحال ہم بات کررہے تھے موجودہ ریاست مہاراشٹرا کی تعمیر اور اس کی ترقی میں کانگریس کے اہم کردار کی آپ کو بتادیں کہ یکم مئی 1960 سے جبکہ اسٹیٹ آف بمبئی سے ریاست مہاراشٹرا نکالی گئی یعنی نئی ریاست مہاراشٹرا کا قیام عمل میں آیا ریاست کے اقتدار پر 20 چیف منسٹرس فائز رہے (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ چیف منسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں) ان میں سے 5 کو چھوڑ کر مابقی تمام چیف منسٹروں کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے رہا (میں نے اس میں مسٹر شردپوار کو بھی کانگریس کے چیف منسٹر کی حیثیت سے شمار کیا ہے جنہوں نے ایک مرتبہ کانگریس سے علیحدہ ہونے انڈین نیشنل کانگریس سوشلسٹ) کی نمائندگی کی ہاں! جیسا کہ سطور بالا میں ہم نے آپ کو بتایا کہ 20 چیف منسٹروں میں سے 5 کاکانگریس کی مخالف پارٹیوں سے تعلق تھا ان میں مسٹر منوہر جوشی، مسٹر نارائن رانے، مسٹر دیویندر فڈنویس، مسٹر ادھو ٹھاکرے اور مسٹر ایکناتھ شنڈے شامل ہیں۔ ان 5 چیف منسٹرس نے 15 سال تک حکومت کی اس کا مطلب یہ ہوا کہ 64 برس 6 ماہ اور 17 دنوں میں 15 سال 5 غیر کانگریسی چیف منسٹرس نے حکومت کی یا اقتدار سنبھالا مابقی 49 برسوں میں کانگریس چیف منسٹرس خدمات انجام دیتے رہے۔ مہاراشٹرا میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کا نومبر 2019 میں انعقاد عمل میں آیا۔ پچھلے 5 برسوں میں دیکھا جائے تو اس ریاست میں تین چیف منسٹرس رہے، ان میں مسٹر دیویندر فڈنویس اور مسٹر ایکناتھ شنڈے مہایوتی کے ساتھ رہے ہیں جبکہ مسٹر ادھو ٹھاکرے نے مہاوکاس اکھاڑی کے مشترکہ امیدوار کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی 31 اکتوبر 2014 سے اقتدار میں ہے۔ سوائے 2 سال 214 دن کے (نومبر 2019 اور جون 2022 کے درمیان جب شیوسینا، کانگریس اور این سی پی (مہاوکاس اکھاڑی) کا اقتدار رہا) بی جے پی نے شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ پیدا کرکے ان کے ارکان اسمبلی کا اعتراف کروایا پھر مہاوکاس اکھاڑی کی حکومت کو زوال سے دوچار کرکے ریاست میں خود اپنی مہایوتی اتحادی یا مخلوط حکومت قائم کی، فی الوقت ریاست میں اسمبلی انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری ہے 288 اسمبلی حلقوں میں صرف ایک مرحلہ کے تحت 20 نومبر کو رائے دہی ہوگی اور 23 نومبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ اس موقع پر مجھے وہ سچائی یاد آرہی ہے جو شکسپیئر کے الفاظ میں کچھ اس طرح درج ہے۔
The good is often Interred with their bones- Nobody Votes for past glory
چنانچہ مہاراشٹرا کے موجودہ انتخابات اس بات کا پتہ دیں گے کہ آخر ریاست مہاراشٹرا کہاں کھڑی ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
ریاست کی معاشی حالت: جہاں تک معیشت کا سوال ہے اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ وہ کانگریس ہی تھی جس نے صنعتیانے کے ذریعہ مہاراشٹرا کو ملک کی نمبر ون ریاست بنایا۔ اس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا لیکن افسوس کے حالیہ برسوں میں ریاست مہاراشٹرا کے ترقی کے مختلف پیمانوں میں درجات گھٹ گئے وہ کئی درجہ نیچے آگئی ہے، یہاں پیش کئے جارہے اعداد و شمار ہی آپ کو سب کچھ بتادیں گے اس ریاست کی شرح نمو سال 2022-23 میں 9.4 فیصد اور سال 2023-24 میں 7.6 فیصد رہی جبکہ سال 2022-23 میں سرمایہ مصارف 85,657 کروڑ روپے اور سال 2023-24 میں 85292 کروڑ روپے درج کئے گئے۔ اسی طرح مذکورہ برسوں میں زرعی نمو بالترتیب 4.5 فیصد اور 1.9 فیصد، خدمات کے شعبہ میں شرح نمو 13 فیصد اور 8.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ حمل و نقل تجارت اور مواصلات کے شعبہ میں شرح نمو 13 فیصد اور 6.6 فیصد رہی۔ تعمیراتی شعبہ کی شرح نمو 14.5 فیصد اور 6.2 فیصد درج کی گئی۔
بڑھتی بیروزگاری : ریاست کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 10.8 فیصد، خواتین میں بیروزگاری کی شرح 11.1 فیصد ہے۔ مہاراشٹرا میں زیادہ تر روزگار خود روزگار ہے۔ چند سرکاری ملازمتوں کے لئے ہزاروں لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں درخواستیں دیتے ہیں۔ مخلوعہ سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں کے لئے وقت بہ وقت اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پولیس کانسٹبلوں؍ ڈرائیوروں کی 18300 مخلوعہ جائیدادوں کے لئے 11 لاکھ سے زائد نوجوانوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ TALATI (ایک ویلیج آفیسر) کی 4500 مخلوعہ جائیدادوں کے لئے بھی 11 لاکھ سے زائد نوجوانوں نے درخواستیں دیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہاراشٹرا میں ورلڈ کلاس بزنس (ہم قومی کمپنیوں) نے اپنی فیکٹریز کمپنیاں اور ادارے قائم کرتے ہوئے لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے اتفاق اور معاہدے کرنے کے باوجود اپنے کاروبار کو اقتدار پر فائز شخصیتوں کے دباؤ میں گجرات منتقل کیا۔ اس معاملہ میں ٹاٹا، ایر بس ٹرانسپورٹ، ایر کرافٹ فیکٹری اور ویدانتا، فاکسام سیمی کنڈکٹرس فیکٹری کو مہاراشٹرا سے گجرات منتقل کیا جانا تازہ مثالیں ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے تمام معاملات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گجرات جیسی GIFT سٹی (Gujrat international finance tec) کو جان بوجھ کر طاقت کے ساتھ دباؤ کے ذریعہ فروغ دیا جارہا ہے اور خصوصی قوانین اور مراعات کے ذریعہ ممبئی کو ملک کے اقتصادی دارالحکومت ہونے کا جو فخر و اعزاز حاصل ہے اس فخر اور اُس اعزاز سے محروم کیا جارہا ہے حالانکہ سارے ملک میں اور ساری دنیا میں ممبئی کی حیثیت ہندوستان کی اقتصادی و تجارتی دارالحکومت کی ہے۔ میں دو حوالوں سے مہاراشٹرا کی معاشی صورتحال کی وضاحت کرتا ہوں۔ مہاراشٹرا میں جس کے چار ضلعی علاقہ ہیں اور اضلاع کے درمیان ایک وسیع تقسیم ہے جو سب سے دولت مند یا دولت سے مالامال اضلاع ہیں ان میں ممبئی، پونہ، اور تھانے شامل ہیں۔ دوسری طرف تادربار، واشیم، گڈچیرولی، ایوت محل، ہنگولی اور بلڈھانہ جیسے اضلاع ہیں۔ ایسے میں ہر دولت مند ضلع کی نیٹ ڈسٹرکٹ ڈومیسٹک پراڈکٹ (NDDP) بہت ہی غریب اضلاع سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس طرح فی کس اوسط NDDP کا فرق اس قدر وسیع ہوگیا جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2011-12 میں 97357 روپے سے بڑھکر 2022-23 میں 2.4 لاکھ روپے ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے ریاست کی مساویانہ ترقی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مختلف اضلاع سے مختلف رویہ اپنایا۔ اس کی ایک اور مثال کسانوں کے ابتر حالات ہیں۔ 2023 میں مہاراشٹرا میں کسانوں کی خودکشیوں کے 2851 واقعات درج کئے گئے ہیں۔ ان خودکشیوں کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومت کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں مثال کے طور پر مرکز نے پیاز کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی اس سے کسان متاثر ہوئے۔ پہلے مرکز نے برآمدات پر پابندی عائد کی۔ احتجاج پر وہ پابندی ہٹادی لیکن اس کی جگہ اقل ترین برآمداتی قیمتیں نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ 40 فیصد کی اکسپورٹ ڈیوٹی بھی عائد کردی جس سے پیاز کے کسانوں کو بہت نقصان ہوا اور ہندوستان عالمی مارکٹ میں اپنے شیر سے محروم ہوگیا۔