سیاست فیچر
مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت سازی کیلئے ایک طویل وقت انتظار کرنا پڑا تاہم کانگریس اور این سی پی نے بی جے پی کو حکومت سازی سے دور رکھنے کیلئے شیوسینا کا ساتھ دیا۔ حکومت بن جانے کے بعد اب مہاراشٹرا میں فی الحال ایک نہایت ہی دلچسپ سیاسی تجربہ ہو رہا ہے جس میں کانگریس اور این سی پی نے ہندوتوا وادی شیوسینا کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بار بار اس کو ہندوتوا کی یاد دلا کرگھیرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن چیف منسٹر ٹھاکرے جم کر اس کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ سی اے اے کے تعلق سے پہلے تو انہوں نے مسلم وفد کو یقین دلایا کہ یہ معاملہ جب تک عدالت میں زیر غور ہے کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک مرکزی حکومت ہمارے سوالات کا اطمینان بخش جواب نہیں دیتی تب تک یہ نافذ نہیں ہوگا۔ انہوں نے جامعہ کے پولیس ظلم کو جلیانوالہ باغ سے مشابہ قرار دے کر اس سے ہمدردی جتائی اور بی جے پی پر تنقید کی ہے ۔ ساورکر کے حوالے سے یہ کہہ دیا کہ گائوکشی کے معاملے میں بی جے پی ان کی اتباع نہیں کرتی وہ مہاراشٹر میں پابندی لگاتی ہے لیکن کرناٹک میں چھوٹ دے دیتی ہے۔ اس منافقت کو واضح کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا کہ مذہب کو سیاست میں داخل کرنا ہماری غلطی تھی اور مہاراشٹر میں غیر ملکیوں کے لیے کوئی حراستی مرکز تعمیر نہیں ہوگا۔ ان جذباتی مسائل کے علاوہ شیوسینا کے سامنے فی الحال دو اہم چیلنجس ہیں۔ اول تو عوام کی توقعات پر پورا اترنا اور دوسرے اپنے ہندوتوا وادی رائے دہندگان کو بی جے پی کے نرغے میں جانے سے بچانا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ تین جماعتوں کی حکومت ہے لیکن چونکہ چیف منسٹر شیوسینا کا ہے اس لیے کامیابی و ناکامی کا سب سے زیادہ فائدہ یا نقصان اسی کے حصے میں آئے گا۔ شیوسینا کی صوبائی حکومت کو دہلی کی مرکزی حکومت کا تعاون حاصل نہیں ہوگا جس کے بعد اس کے لیے فلاحی اسکیموں کو چلانے کی خاطر فنڈ کی کمی محسوس ہوگی۔ مہاراشٹر کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا سب سے خوشحال صوبہ ہے لیکن یہاں کی دھن دولت امبانی اور اڈانی جیسے چند خاندانوں کی تجوری میں بند ہے۔ عوام اور ان کی حکومت دونوں اس سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسی ریاست میں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرتے ہیں۔ پانچ سال قبل جب فڑنویس حکومت اقتدار میں آئی تھی تو سرکاری خزانہ دو لاکھ انہتر ہزارکروڑ کے قرض میں ڈوبا ہوا تھا۔ فڑنویس اس میں کمی کرنے کے بجائے تقریباً 45 فیصد کا اضافہ کرکے واپس ہوئے یعنی فروری 2019 تک جملہ قرض چار لاکھ چودہ ہزارکروڑ ہوگیا۔ ان حالات میں ادھو ٹھاکرے کے لیے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنا مشکل ہوگا۔ فی الحال ان کے سامنے بیروزگاری اور مضطرب رائے دہندگان کو بی جے پی کے چنگل میں جانے سے روکنا سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ وہی سب سے بڑی اپوزیشن ہے اور حکومت کی ناراضگی کا براہِ راست فائدہ اسی کو ہوگا۔ شیوسینا کے علاوہ این سی پی کے لیے مہاراشٹر کے اندر بہار جیسی صورتحال کو رونما ہونے سے روکنا سب سے بڑا چیلنج ہے تاکہ وہاں پر آر جے ڈی اورکانگریس کے ساتھ جو ہوا یہاں پر این سی پی اورکانگریس کی وہی حالت نہ ہونے دی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ مرکزی حکومت شیوسینا کو نتیش کمار کی مانند بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن دونوں مقامات میں فرق ہے۔ بہار میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود نتیش کمار چیف منسٹرتھے جبکہ بی جے پی تیسرے نمبر پر ہے اس لیے نتیش کا عہدہ محفوظ رہے گا۔ ان حالات میں ایک سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا مہاراشٹر میں بی جے پی پہلے نمبر پر ہونے کے باوجود ادھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر کے طور پر برداشت کرے گی؟ کیا شیوسینا بی جے پی کے ساتھ جانے کے لیے یہ اہم عہدہ چھوڑ دے گی؟ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے اس سرکارکو دباؤ ڈال کر برخواست کردیا تو عوام کے اندر اس کے خلاف شدید غم غصہ پیدا ہوگا اور انتخاب میں بی جے پی بری طرح ہار جائے گی۔ پچھلے انتخاب میں وہ پوار پر ای ڈی کے چھاپے کی سزا بھگت ہی چکی ہے۔ اس طرح کی حماقت کے اثرات قومی انتخاب پر بھی پڑیں گے لیکن امیت شاہ اور دیویندرفڑنویس کی قیادت میں بی جے پی والے کیاکرگزریں؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کانگریس کے پاس فی الحال گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کی توگویا لاٹری ہی لگ گئی ہے۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے نانا پٹولے کو اسپیکر بنواکر ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے حکومت کا چہرہ بننے سے خودکو دورکر لیا ہے۔ اسپیکر کا عہدہ بی جے پی کے ذریعہ کانگریسی ارکان اسمبلی کے اغواء میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی ودربھ میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے کی ہے۔ اس کے پاس مراٹھواڑہ اورمغربی مہاراشٹر کے اشوک چوہان اور پرتھوی راج چوہان جیسے بڑے رہنما موجود ہیں، اس کے باوجود اس نے شیواجی پارک میں شمالی مہاراشٹر کے مراٹھا تھورات اور ودربھ کے دلت نتن راؤت کی حلف برداری کروائی۔ اسپیکر کے لئے اس نے پسماندہ ذات کے رہنما نانا پٹولے کا انتخاب کیا۔ پٹولے کا تعلق ودربھ سے ہے۔ وہ 2008 تک کانگریس میں تھے اس کے بعد بی جے پی میں جاکر2014 میں پرفل پٹیل جیسے بڑے رہنما کو شکست دی لیکن 2017 میں وزیراعظم پر علی الاعلان تنقید کر کے کسانوں کے مسئلہ پر پارٹی چھوڑ دی۔ اس کے بعد نتن گڈکری کے سامنے کانگریس نے انہیں میدان میں اتارا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسمبلی میں کامیابی کے بعد کانگریس نے ان کو اس اہم عہدے سے نوازکر ودربھ کے مختلف سماجوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی سعی کی ہے۔ ودربھ میں کانگریس کو این سی پی یا شیوسینا کے بجائے بی جے پی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کوشش میں اگر اسے کامیابی ملتی ہے تو قومی سطح پر وہ اس کے لیے مفید ہوگی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس دوراندیش حکمت عملی پر کام کررہی ہے۔ مہاراشٹر کی سیاسی بساط پر مختلف مہروں کا یہ کھیل آگے کیا گل کھلاتا ہے، کس کو نایک اور کسے کھل نایک بناتا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔