پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
میرا کالم 16 نومبر 2024 کو انڈین ایکسپریس اور پھر سیاست کے سنڈے ایڈیشن میں مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات سے متعلق شائع ہوچکا ہے اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ بی جے پی ، شیوسینا اور این سی پی پر مشتمل مہایوتی اتحاد نے مہاراشٹرا انتخابات میں کامیابی کا انعام یا پرائز فیصلہ کن انداز میں حاصل کیا ۔ 288 رکن اسمبلی میں مہایوتی نے 230 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ۔
ریاست مہاراشٹرا میں کانگریس ، شیوسینا ( اُدھو ٹھاکرے گروپ) اور این سی پی ( شردپوار گروپ ) پر مشتمل مہا وکاس اگھاڑی کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ اس مرتبہ کامیاب ہوگی اور بی جے پی کی زیرقیادت مہا یوتی کو اقتدار سے بیدخل کردے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ مہا وکاس اگھاڑی کے خلاف مہایوتی کو ایسی شاندار کامیابی حاصل ہوئی جس کا کبھی تصور نہیں کیا گیا جس کی کبھی توقع تک نہیں کی گئی ۔ مہا یوتی کی اس فیصلہ کن کامیابی کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر مہا یوتی کی کامیابی کا سبب کیاتھا ، اس کی برتری کی وجہ کیا تھی؟
اکثر لوگ ایسا لگتا ہے کہ مہا یوتی کی کامیابی کا اصل سبب لاڈلی بہنا یوجنا (LBY) کو بتارہے ہیں اُن کے خیال میں اس اسکیم نے مہاراشٹرا جیسی اہم ریاست میں بی جے پی اوراس کے حلیفوں کو کامیابی دلائی ۔ جہاں تک لاڈلی بہنا اسکیم کا سوال ہے اس اسکیم کے تحت شنڈے حکومت نے وعدہ کیا کہ ریاست میں ہر اُس خاتون کو ماہانہ 1500 روپئے وظیفہ دے گی جس کے گھر کی مجموعی سالانہ آمدنی 250000 روپئے ہو ۔ شنڈے حکومت نے یکم جولائی 2024 ء سے اس اسکیم پر عمل آوری بھی شروع کردی تھی جس کے نتیجہ میں ریاست کی 2.5 کروڑ خواتین کو ماہانہ 1500 روپئے حکومت کی جانب سے حاصل ہونے لگے تھے ۔ ایک اور بات مہا یوتی نے یہ بھی وعدہ کیا تھاکہ اقتدار برقرار رکھنے میں اگر وہ کامیاب ہوتی ہے تو وہ لاڈلی بہنا اسکیم کے تحت دی جانے والی 1500 کی رقم بڑھاکر 2100 روپئے کردے گی ۔ اس اسکیم مہایوتی کے حق میں کام کیا کیونکہ کسانوں میں پہلے ہی سے بہت زیادہ ذہنی دباؤ پایا جاتا تھا ۔ ریاست میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی تھی خاص طورپر دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین بیروزگاری کے سبب کافی پریشان تھیں۔ دیہی علاقوں میں یومیہ اُجرت میں کوئی اضافہ نہیں تھا نتیجہ میں مہنگائی بھی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ ان حالات میں لاڈلی بہنا اسکیم خواتین کیلئے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی لیکن یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ یہ بی جے پی کی زیرقیادت مہا یوتی کی کوئی انوکھی اسکیم نے نہیں تھی بلکہ یہ دوسری ریاستوں سے نقل کی گئی اسکیم تھی ۔ اس اسکیم پر پہلے ہی مدھیہ پردیش ، ٹاملناڈو ، کرناٹک اور تلنگانہ جیسی ریاست میں عمل آوری کی جاچکی ہے ۔ اس کے علاوہ مہایوتی کی اصل حریف مہا وکاس اگھاڑی نے بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر مہا وکاس اگھاڑی کو اقتدار ملتا ہے تو ریاست کی ہر غریب خاتون کو 3000 روپئے دیئے جائیں گے ۔ ایسے میں راقم الحروف یہ نہیں سمجھتا کہ لاڈلی بہنا اسکیم انتخابات میں مہا وکاس اگھاڑی کے امکانات متاثر کرنے کا باعث بنی ۔
میرے خیال میں مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں جس نئے پہلو نے اہم کردار ادا کیا وہ بڑی عیاری اور مکاری سے اور خفیہ طورپر دیا گیا پیغام تھا جو مہاراشٹرا کے رائے دہندوں کو مسٹر نریندر مودی ، مسٹر امیت شاہ اور مسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے دیا اور اس پیغام کو آر ایس ایس والینٹروں نے عوام تک پہنچایا۔ ان لوگوں نے ایک نعرہ دیا ’’ایک ہیں تو سیو ہیں ‘‘ اور ’’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘‘ ان نعروں کو بڑی ہشیاری کے ساتھ اور اکثریتی رائے دہندوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے بطور خاص گھڑا گیا تھا جس کا مقصد صرف اور صرف ایک مخصوص کمیونٹی کے ارکان تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اُنھیں اپنے حق میں ہموار کرنا تھا ۔ ویسے بھی ہم سب نے دیکھا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران لو جہاد اور ووٹ جہاد جیسے نعروں کو لیکر اشتعال انگیز اور منافرت پھیلانے والی تقاریر کی جاتی ہیں ۔ اب تو یہ ہمارے ملک میں معمول بن گیا ہے۔ ( حالانکہ سپریم کورٹ نے اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے اور منافرت پھیلانے والی تقاریر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دی ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم پر کہیں پر بھی عمل نہیں کیا جارہاہے) ۔
اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی قیادت نے انتخابی مہم میں استعمال کئے جانے والے پرانے نعروں جیسے تکڑے تکڑے گینگ اور اربن نکسل پر نظرثانی کی ہے ۔ ان کا نئی شکل و صورت میں الگ قسم سے احیاء کیا ہے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں ایک مخصوص کمیونٹی کو جس ہشیاری سے پیغام دیا ، اس پیغام سے ان کے جو مقاصد تھے وہ بالآخر کامیابی کی شکل میں پورے ہوئے ۔ مذکورہ نعروں نے میرے ذہن میں وہ زہریلے بیانات و نعرے تازہ کردیئے جو لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران دیئے گئے تھے اور جان بوجھ کر دیئے گئے ۔ اُس وقت کہا گیا کہ اگر آپ کے پاس دو بھینس یا بیل ہیں تو کانگریس وہ آپ سے لے کر دراندازوں کو دیدے گی ۔ آپ کے منگل سوتر حاصل کرلئے جائیں گے اور ان تمام چیزوں کو اُن لوگوں کو دیدیئے جائیں گے جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔
نریندر مودی نے اشاروں اشاروں میں جو بات کہی اُس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے کس کمیونٹی کو نشانہ بنایا اور اُن کے پیغام کا کیا ارادہ تھا وہ بھی واضح ہوگیا ۔ تمام ہندوستانی اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ جس کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے اس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے ایک مخصوص کمیونٹی کا وجود خطرہ میں پڑگیاہے ( یہ لوگ دراصل اکثریتی فرقہ میں یہ احساس اور جذبہ پیدا کرنے کی کوشش ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی سے اُنھیں ( اکثریت کو ) خطرہ لاحق ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ مسٹر آر جگناتھن ایک کالم نگار ہیں اور عام طورپر اُنھیں بی جے پی کے ایک ہمدرد کے طورپر جانا جاتا ہے ۔ انھوں نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک کالم لکھا جس میں اس بات کا اعتراف کیاکہ مہاراشٹرا میں بی جے پی نے جو نعرے لگائے وہ ہندو ووٹوں یا ہندو رائے دہندوں کو متحد و مستحکم کرنے کا ایک طاقتور و بااثر نعرہ ثابت ہوا ۔ نئے نعروں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے جاریہ سال وجئے دشمی کے موقع پر جو خطاب کیا وہ اسی کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اپنے خطاب میں انھوں نے پرزور انداز میں کہا تھا دنیا بھر میں مقیم ہندو کمیونٹی کو غیرمنظم ، غیرمتحد اور کمزور ہونے کے بھیانک نتائج سے واقف ہونا چاہئے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہندو غیرمتحد ، غیرمنظم اور کمزور رہیں گے تو مظالم اور ظلم و جبر کو دعوت دیں گے کیونکہ دنیا میں ایسی ہی قوموں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ نعرے اورتقاریر دراصل نفرت پر مبنی مہم کا ایک حصہ تھے ۔ پھوٹ ڈالو اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرو کی حکمت عملی کا ایک حصہ تھے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہو تقاریر اور نعرے آزادی اظہارِ خیال اور آزادی تقاریر کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ یہ نعرے اور تقاریر دستور ہند کی توہین ہے اور دستور کی کئی ایک دفعات بشمول دفعہ 15 ، 16 ، 25 ، 28(2)26 ، 28(3) ، 29 اور 30 کی بھی صریح خلاف ورزی ہے اور نفرت انگیز جو مہم ہے اسے بلاشہ مہا یکتی کہا جاسکتا ہے اور اس حکمت عملی کو ہی مہایوتی نے اپنایا ۔
اگر دیکھا جائے تو ہر ملک میں اقلیتی آبادی ہے اور ایک اقلیت مذہبی یا لسانی یا پھر نسلی ہوسکتی ہے ۔ مثال کے طورپر امریکہ ہمارے سامنے ہے ۔ امریکہ میں سیاہ فام باشندے اور لاطینی عوام ہیں۔ اسی طرح چین میں ایغور اور پاکستان میں شیعہ اقلیتیں ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتیں ہیں۔ سری لنکا میں ٹامل باشندے اور مسلمان اقلیتیں مقیم ہیں ۔ دوسری طرف آسٹریلیا میں وہاں کے اصلی باشندے جو خود کو وہاں کے حقیقی باشندے کہتے ہیں اقلیت میں ہیں۔ اسرائیل میں عرب کئی یوروپی ملکوں میں یہودی اور روما اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ یوروپی کونسل نے قومی اقلیتوں کے تحفظ کیلئے فریم ورک کنونشن 1998 ء کو اپنایا تاکہ عوام میں مساوات کو فروغ دے کر قومی اقلیتوں کے کلچر اور شناخت کا تحفظ کیا جائے ۔ Seminal Laws میں سیول رائیٹس ایکٹ 1964 ( یہ قانون امریکہ میں ہے ) اور کئی ایسے قوانین ہیں جس کے ذریعہ آسٹریلیا کے حقیقی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا جبکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی غیرمعمولی سیاسی بصیرت نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا اور اقلیتوں کے حقوق کو بنیادی حقوق میں شامل کیا اور آج دستورہند میں یہ قوانین بنیادی حقوق کی شکل میں موجود ہیں ۔
دوغلا پن : ہندوستانی اور حکومت ہند بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندوؤں کے حقوق سے متعلق پرجوش ہیں ۔ وہ ان ملکوں میں مقیم ہندوؤں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں ، ان کی وکالت کرتے ہیں اور جب بیرونی ملکوں کی یونیورسٹیز میں ہندوستانی نژاد طلبہ کو ہراساں و پریشان کیا جاتا ہے یا قتل کیا جاتا ہے تو ہم تشویش میں مبتلا ہوکر اظہارِ تشویش کرنے لگتے ہیں ۔ مرکزی وزارت خارجہ فوری حرکت میں آکر انتباہ جاری کرنے لگتی ہے اور اپنی بات آتی ہے تو پرزور انداز میں کہتی ہے کہ ہمارے داخلی اُمور میں مداخلت نہ کی جائے ۔ یہ بظاہر دوغلا پن ہی ہے ۔ ویسے بھی دنیا بھر میں نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ نفرت کا زہر پھیلایا جارہا ہے ۔ بنگلہ دیش میں ایک ہندو مذہبی رہنما کو گرفتار کیا گیا اور ISKCON پر پابندی کے پرشور مطالبات کئے جارہے ہیں ۔ ایک ہندوستانی مٹھ کے سربراہ نے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے ہوئے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ مذکورہ دونوں مطالبات ایک جمہوریت کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ اگر این ڈی اے پھوٹ ڈالو اور جیتو کا اپنا کھیل کھیلتی رہے گی تو پھر اقلیتوں کا مسئلہ ہندوستان کا پیچھا کرتا رہے گا ۔