مہنگائی اور بیروزگاری سے محبت کرنے والے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

گزشتہ اتوار کو کانگریس پارٹی نے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ہلہ بول ریالی کا اہتمام کیا جہاں تک بیروزگاری اور مہنگائی کا سوال ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر کوئی ان دونوں سے پریشان ہے، مجروح ہے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ہر کوئی مہنگائی اور بیروزگاری کو کم کرنے سے متعلق پرعزم ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ مجھے بڑے پیمانہ پر پھیلائے گئے ان غلط خیالات کو پنکچر کرنا پڑے گا ۔ ہاں آبادی کے کچھ ایسے حصے ہیں اور اپنی سانسیں روک لیں۔ حکومت کے بھی حصہ ہیں جو بیروزگاری اور بڑھتی مہنگائی سے بہت خوش ہیں ۔ یہ وہ عناصر ہیں یا حصہ ہیں جو بیروزگاری اورا فراط زر کے جھنڈے کو بلند رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ یہ ایسے حصہ ہیں جو برسر عام یا پھر ڈھکے چھپے انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ آیئے شروع کرتے ہیں ، ان لوگوں سے جو بیروزگاری سے محبت کرتے ہیں۔
کاروبار اور حکومت : کاروبار بیروزگاری سے محبت کرتا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ ملازمتوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کا تعاقب کرتے ہیں۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چند ملازمتوں کیلئے ہزاروں لاکھوں بیروزگار نوجوان درخواستیں دیتے ہیں اور کافی طویل عرصہ تک اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کب کال لیٹر آئے اور کب ملازمت انہیں مل جائے ۔ اس معاملہ میں ایک اور اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ملازمت فراہم کرنے والوں کی سودے بازی کرنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں تنخواہیں بہت کم دی جاتی ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے تو وہ معمولی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ کے باوجود سال 2021-22 ء میں زرعی شعبہ کی تنخواہوں میں3 فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا ۔ 2019 ء میں زرعی شعبہ سے وابستہ ایک ہندوستانی خاندان کی ماہانہ اوسط آمدنی 10213 روپئے رہی (ذریعہ ای ایس 2021-22 ) جو 4-5 ارکان خاندان کے کھانے پینے ، رہائش و لباس ، تعلیم ، نگہدداشت ، صحت اور تفریح طبع کیلئے بمشکل کافی ہے ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے اس دور میں آپ ہی بتایئے کہ 10,000 روپئے 4.5 لوگوں کیلئے کافی ہوجائیں گے؟ کیا وہ اس مختصر سی رقم میں اپنے کھانے پینے ، رہنے ، لباس ، تعلیم ، نگہداشت ، صحت اور تفریح طبع کے انتظامات کرلیں گے ؟ چونکہ ملازم یا ’’خود ملازمت‘‘ کرنے والوں کی Bargaining طاقت کمزور ہوتی ہے اس لئے ایک خاندان کی اوسط آمدنی میں کچھ زیادہ ا ضافہ نہیں ہوتا بلکہ معمولی اضافہ ہوتا ہے ۔ بھرتیوں کے سرکاری ادارے اور پبلک سیکٹر کے انٹرپرائس بیروزگاری سے محبت کرتے ہیں ۔ چند نچلے درجہ کی ملازمتوں پر بھرتیوں کیلئے گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس نوجوانوں کی ہزاروں لاکھوں درخواستیں داخل کی جائیں تو تقررات کے مجاز حکام بہت زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں۔ ان کے اختیارات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ایسا لگنے لگتا ہے کہ ان ملازمتوں پر تقررات ان کے ہی صوابدید پر ہے ۔ ان حالات میں درمیانی آدمی (دلال) پنپنے لگتے ہیں ۔ غیر قانونی رقمی لین دین ہونے لگتا ہے ۔ اسکامس ہونے لگتے ہیں ، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ملازمتیں کم (جائیدادیں کم) اور انہیں حاصل کرنے کے خواہاں بیروزگاروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور سب کے سب اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہاں بے چینی و اضطراب کی کیفیت بڑھ جاتی ہے اور خانگی و سرکاری اور حکومتی شعبوں میں بھرتیوں سے متعلق معلومات و لیبر ویلفیر خواتین کو ایک طرح نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فی الوقت ٹریڈ یونین تحریک بھی کمزور پڑ گئی ہے ۔ ماضی میں ٹریڈ یونین کی تحریکوں سے حکومتوں پر خوف چھایا رہتا تھا ، وہ مزدوروں کے حقوق کے لئے لڑنے والوں سے خائف رہا کرتی تھیں۔
جرائم کے سنڈیکٹس بھی بیروزگاری کو پسند کرتے ہیں : منشیات کی اسمگلنگ ، شراب کی غیر قانونی تجارت ، غیر قانونی سٹہ بازی ، جوے بازی ، انسانی اسمگلنگ اور اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ایک بہت بڑا ایریا ہے۔
محاصل جمع کرنے اور فروخت کرنے والے ، ریونیو ڈپارٹمنٹ اور ٹیکس جمع کرنے والے بھی افراط زر (مہنگائی) اور بیروزگار کو پسند کرتے ہیں۔ ماہانہ کے حساب سے یعنی ہر مہینہ محاصل جمع کرنے والے ٹیکس وصولی کے معاملہ میں ایک نئی بلندی کو چھو لینے کی اطلاع دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جی ایس ٹی کی وصولی ہمارے سامنے موجود ہے ۔ یہ لوگ کبھی بھی مہنگائی سے ایڈجسٹ شدہ نمبر یا عدد کے بارے میں آگاہ نہیں کرتے ۔ واضح رہے کہ اگست 2022 ء میں جی ایس ٹی کی وصولی 1,43,612 کروڑ روپئے تھی (یہ وصولی اگست 2021 ء میں 1,12,020 کروڑ روپئے درج کی گئی تھی) تاہم گزشتہ 12 ماہ میں اوسط افراط زر کیلئے ایڈجسٹ کی گئی ۔ جی ایس ٹی کی وصولی کی اصل قیمت صرف 1,33,559 کروڑ روپئے ہی تھی لیکن اشتہاری Valorem Taxes کی صورت میں محاصل کی شرح کو مستحکم رکھنے کے باوجود ٹیکس جمع کرنے والے فائدے حاصل کرسکتے ہیں ۔
بجٹ بنانے والوں کو بھی مہنگائی پسند ہے : بجٹ دستاویزات میں نمبر موجودہ قیمتوں اور موجودہ قیمتوں میں ہے۔ لہذا بجٹ بنانے والا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے موجودہ سال میں اس سے زیادہ رقم مختص کی ہے جو گزشتہ سال میں مختص کی گئی تھی ۔ اگر دیکھا جائے تو مہنگائی کو بہت کم شہری ہی ایڈجسٹ کریں گے ۔ مثال کے طور پر افراط زر کیلئے 2022-23 ء کے بجٹ میں دفاع ، کھاد، خوراک زراعت ، توانائی ، صحت ، دیہی ترقی اور شہری ترقی کیلئے مختص کی گئی رقم 2021-22 ء کے نظر ثانی شدہ تخمینوں سے کم تھی ۔ اس طرح سرکاری قرضوں کے منتظمین کو مہنگائی و بیروزگاری پسند ہے ۔ چونکہ قرض لیا جاتا ہے اور موجودہ قیمتوں میں ادا کیا جاتا ہے ۔ مہنگائی کی شرح ترقی کی قدر میں کمی لاتی ہے اور قرض لینے والا دراصل اس قرض سے کم ادا کرتا ہے جو اس نے لیا تھا ۔
فروخت کرنے والے اور بیچنے والے بھی مہنگائی پسند کرتے ہیں ۔ اکسپورٹرس، سودی قرض دینے والے و کاروباری ادارے اور کنٹراکٹرس (گتہ دار) بھی مہنگائی اور بیروزگاری کو پسند کرتے ہیں کیونہ جتنی زیادہ مہنگائی بڑھے گی اتنا ہی زیادہ ان کا فائدہ ہوگا۔
اگر دیکھا جائے تو بڑے بڑے کاروباری ادارے اور خاص کر کارپوریشنس مہنگائی اور بیرو زگاری کو پسند کرتے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی مہنگائی اور بیروزگاری سے محبت ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اداریے تحریر کرنے والوں کو بھی مہنگائی اور بیرو زگاری پسند ہے۔ اگر اداریے تحریر کرنے والے بھی کاہل ہو تو وہ نئے اعداد و شمار کی بجائے وہ بیروزگاری اور مہنگائی پر تحریر کردہ پرانا اداریہ نکال کر اس کی نقل کرلے گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ اس لئے کہ کوئی بھی اداریہ نہیں پڑھے گا اور آخر میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ حکمراں جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی بیروزگاری اور مہنگائی پسند ہے۔ یہ دونوں دراصل حکمرانوں کی تباہی کیلئے اپوزیشن کے ہتھیار ہیں ، اپوزیشن کے ہاتھوں میں لاٹھیوں کے مانند ہیں ، جیسے ’’مودی ہے تو مہنگائی ہے اور مودی ہے تو بیروزگاری ہے ‘‘۔ جیسے نعرے اپوزیشن لگاتی ہے ۔ جواب میں حکومت کہتی ہے، میری بیروزگاری اور افراط زر آپ سے بہتر ہے ۔ بہرحال ایک دن ایسا آئے گا جب ہر کوئی بیروزگاری اور مہنگائی کو پسند کرے گا ۔