’’مہنگائی‘‘ بناء لاؤڈ اسپیکر کے چیخ رہی ہے

   

روش کمار
عوام کو لاؤڈ اسپیکر کی سیاست میں الجھانے کے بعد بھی مہنگائی آج بناء لاؤڈ اسپیکر کے زور زور سے چیخنے لگی۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے صاف صاف کہہ دیا کہ مہنگائی کا راج ابھی رہے گا جینا مزید مہنگا ہونے والا ہے لیکن آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔ ایک دن بیان آجائے گا کہ مہنگائی کبھی نہیں تھی۔ آکسیجن کی کمی نہ تب تھی اور نہ اب ہے۔ ریزرو بینک نے مہنگائی کے خلاف لڑنے کا اعلان کردیا ہے لیکن ہمارا نظام یا سسٹم کس سے لڑ رہا ہے، اسے ٹھیک سے دیکھئے۔ کیا آپ تلک دھاری سروج کو جانتے ہیں ایسے تو تلک دھاری سروج کہیں بھی ہوسکتے ہیں کسی بھی ریاست میں ہوسکتے ہیں اور کسی کے اندر بھی ہوسکتے ہیں۔ فی الحال یہ یوپی کے للت پور ضلع کے ایک تھانہ کے ایس ایچ او تھے۔ تلک دھاری سروج پر ایک نابالغ دلت لڑکی کی عصمت ریزی کا الزام ہے۔ للت پور کے ایس پی نکھل پاٹھک نے تلک دھاری سروج کے خلاف عصمت ریزی کا مقدمہ درج کرکے انہیں معطل کردیا ہے۔ یہ ناصرف ایک سنگین جرم کا معاملہ ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں مردوں کے مرد بننے کے عمل کا بھی معاملہ ہے۔ اگر آپ اپنے اطراف و اکناف مردوں پر نظر ڈالیں تو آپ مختلف وجوہات کی بناء پر طاقت کا جھنڈا اُٹھائے نظر آئیں گے۔ آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ طاقت اور اَنا سے لیس مردوں کا یہ معاشرہ اندر ہی اندر کیسے بدل رہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس کی وردی نے تلک دھاری سروج میں مرد ہونے کا کوئی اضافی احساس چھپا رکھا ہوگا۔ آپ اس کی تصویر دیکھ سکتے ہیں جس میں تلک دھاری سروج کمزور نظر آرہا ہے لیکن کمزوری کو دیکھنے کا یہ سماجی نظریہ بھی کسی کو مایوسی سے بھر دیتا ہے اور وہ اس طاقت کو زہر میں بدل دیتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو کیسے کمزور سمجھتا ہے اور معاشرہ کیسے کمزور سمجھتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں کسی کو لڑکے سے مرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ہندوستان جیسے وشوا گرو (عالمی گرو) قسم کے ملک میں پولیس کے روزمرہ کے کام کو دیکھیں اور اس کام میں طاقت کا استعمال بھی دیکھیں۔ جس طرح سے پولیس معمول کے طور پر تھانہ میں اذیتیں دیتی ہے، فرضی انکاؤنٹر کرتی ہے۔ فرضی و جعلی مقدمات میں کسی کو پھنسا دیتی ہے، راستے سے وصولی کرتی ہے، یہ سب کام پولیس والوں کو الگ سے مرد بنا رہا ہوتا ہے۔ اگر اس نظر سے دیکھیں گے تو وردی کا یہ جرم سمجھ آئے گا تب آپ تلک دھاری سروج کو صرف عصمت ریزی کے مقدمہ میں ایک ملزم کی طرح نہیں دیکھیں گے۔ آپ نے ابھی چینائی کے ایک پولیس اسٹیشن میں آٹو ڈرائیور کے مارے جانے کے بارے میں ضرور سنا ہوگا ۔ چند سال قبل ٹاملناڈو میں معمولی جھگڑے پر پولیس والے دکاندار اور اس کے بیٹے کو اُٹھاکر لے گئے اور ساری رات ان کی اس قدر پٹائی کرتے رہے کہ باپ کی موت ہوگئی۔ جو پولیس طاقت کے زور پر فرضی انکاؤنٹر کرسکتی ہے، وہی پولیس، پولیس اسٹیشن میں کسی کو مار بھی سکتی ہے۔ اقتدار کے اندر کئی محکمہ جات میں اس طرح کے کئی آدمی ہیں، صرف پولیس ایسی ہوتی ہے، ضروری نہیں، یہ وہی مرد ہیں جن کی عورت اور کمزور شہریوں کو دیکھنے کی خاص نظر ہوتی ہے جو اسے Rapist سے ایک ظالم تک بنا دیتی ہے جس نے گورکھپور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے منیش گپتا کو اتنا مارا کہ وہ مرگیا۔ گزشتہ سال مارچ میں ریاست راجستھان کے اَلور میں ایک تھانیدار کو 26 سالہ خاتون کے ساتھ زیادتی کے الزام میں معطل کردیا گیا تھا۔ پولیس کے ظلم و بربریت کی لرزہ دینے والی داستانیں آپ کو ملک کی تمام ریاستوں سے ملیں گی، چاہے وہ عصمت دری کی داستان ہو یا بازیابی تک کی داستان آپ بھی جانتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس اصلاحات کی بات کرنے والوں نے دکانیں چلانی شروع کردیں۔ پولیس اصلاحات کے نام پر نئی وردی اور نئی گاڑی آگئی لیکن پولیس نئی پولیس نہیں بن سکی۔ جب تک آپ وشوا گرو (عالمی گرو) قسم کے معاشروں کے مردوں کی قسم کو نہیں سمجھیں گے تب تک تلک دھاری سروج کو نہیں سمجھیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیس میں اچھے لوگ ہوتے ہیں اور تمام پولیس والے ایسے نہیں ہوتے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے کیسے ہوجاتے ہیں کہ جیسے ہی وہ پولیس کے پاس آتے ہیں، ان کی وجہ سے عام لوگ ہی کانپنے لگتے ہیں۔ وہ پولیس کا نام سنتے ہیں، ہم اس معاشرہ اور حکومت کی بھی بات کررہے ہیں جس کی فیاکٹری میں ایسے انسان تیار ہوتے ہیں اور پولیس تیار ہوتی ہے۔ دہلی میں نربھیا کیس کے دوران جسٹس ورما کمیٹی نے کئی مشورے دیئے تھے، تجاویز پیش کی تھیں۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پولیس اسٹیشنوں میں بھی جنسی تشدد کے کئی جرائم ہوتے ہیں۔ تمام پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کی گاڑیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جانے چاہئیں۔ پولیس کا یہ حال ہے کہ اسے کیمرے کی آنکھ میں رکھنا ہے۔ کیا تمام پی سی آر ویانس اور پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں؟
جسٹس ورما کمیٹی نے 23 جنوری 2013ء کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ 9 سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ جسٹس ورما کمیٹی نے یہاں تک لکھا تھا کہ جس جگہ پوچھ گچھ ہوتی ہے، وہاں بھی ایک سی سی ٹی وی کیمرہ ہونا چاہئے تاکہ پولیس عہدیدار قانون کے دائرہ میں رہ کر پوچھ گچھ کریں تاکہ جنسی تشدد کی شکایت درج کرانے کیلئے آنے والوں کو خوف زدہ نہ کیا جائے۔ تلک دھاری سروج سے پہلے چندن راج بھر، ہری شنکر اور مہندر چورسیا کا بچپن سے لڑکپن اور انسان بننے تک کا سفر کیسا رہا۔ یہ لوگ کیا کرتے رہے ہیں۔ کیا دیکھتے رہے ہیں؟ یہ سب معلوم ہونا چاہئے۔ آپ اس کی گرفتاری کی تصویروں سے زیادہ نہیں جانتے۔ یوپی پولیس سنجیدہ ہوگئی۔ اس معاملے کی تحقیقات ڈی آئی جی کو سونپی گئی ہے اور 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے چائیلڈ لائن میں بچی کی کونسلنگ کی گئی، ورنہ وہ یہ بات کبھی نہ کہہ پاتی۔ 15 مارچ 2022ء کو مرکزی حکومت نے لوک سبھا کو بتایا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق یکم اپریل 2021ء سے 8 مارچ 2022ء تک پولیس کی تحویل میں عصمت ریزی کا ایک بھی واقعہ درج نہیں ہوا ہے۔ حال ہی میں الہ آباد ہائیکورٹ نے ایک کیس کے سلسلے میں ریمارکس کئے تھے کہ پولیس کو ’محافظ‘ بننا چاہئے، لیکن وہ کہاں گئی ہے۔ پولیس کی وجہ سے عوام کا قانون پر بھروسہ کم ہوتا ہے۔ پولیس میں موجود اچھے لوگوں کو بھی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ انہیں بھی اسی عینک سے CSDS کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔
سال 2018ء میں کئی دہائیوں میں ایک سروے کیا گیا اور 22 صفحات پر مشتمل ایک صخیم رپورٹ شائع کی گئی۔ آپ سڑکوں پر دکانداروں سے پوچھیں کہ وہ پولیس کو کتنا ’ہفتہ‘ دیتے ہیں۔ ہفتہ کا رجحان اتنا معمول بن گیا ہے کہ اب کوئی بولتا بھی نہیں، ہم آپ، بیرون ملک رہنے والے این آر آئی ماموں کو واٹس ایپ پر ویڈیو کال کریں اور ان سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے ان ملکوں میں کبھی ایسی چیز دیکھی ہے جہاں وہ رہتے ہیں۔