روش کمار
ملک میں جو مہنگائی پائی جاتی ہے، اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ مہنگائی ایک مسئلہ ہے، لیکن یہ سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اس فرق کو کوئی سمجھتا ہے تو پھر مہنگائی کے بارے میں بات کرنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سیاسی طبقہ مہنگائی کا حامی بن کر سامنے آیا۔ مہنگائی کے یہ حامی بڑی آسانی کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی وقت مہنگائی کے حق میں طرح طرح کے دلائل دیتے ہیں اور اگر بحث کی بھی جاتی ہے تو وہ بحث میں جیت جاتے ہیں، کئی بار لوگ سچائی پر رہنے کے باوجود بحث میں ہار جاتے ہیں۔ مہنگائی کے حامیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے مہنگائی کو سیاسی مسئلہ بننے نہیں دیا۔ حکومت مہنگائی کے ذریعہ عوام کے جیبوں سے کمائی کررہی ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ زبان پر مہنگائی کے خلاف نعرہ پہلے جیسا نہیں ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی نے ملک میں کورونا کی صورتحال پر وزرائے اعلیٰ کا اجلاس طلب کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کووڈ پر تبادلہ خیال کیلئے طلب کئے گئے اجلاس میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پر بات کی گئی۔ کیا ہمارے وزیراعظم مہنگائی خاص طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پر ایک علیحدہ اجلاس طلب نہیں کرسکتے تھے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ کووڈ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کئے گئے اجلاس میں مودی جی مہنگائی کی بات کرنے لگے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہنگائی کی بحث کسی اور رُخ پر چلی گئی؟
آپ نے حکومت کو بتایا کہ وہ چاند کہاں ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا تو حکومت نے دوربین کا رُخ موڑ کر کہا کہ اب ستاروں کو دیکھو، آسماں ستاروں سے بھرا ہے، ہر ستارہ اپنے آپ میں ایک چاند ہے۔ دوربین کو موڑنا بحث کا رخ موڑنا ہے۔ تم ستاروں کو کوسنے لگو کہ ان کی وجہ سے چاند آسمان پر چھا گیا ہے۔ مہنگائی پر کوئی بحث نہیں ہے، بی جے پی اور غیربی جے پی ریاستوں میں مہنگائی پر بحث ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جو مسلسل اضافہ ہورہا ہے، کیا وہ صرف اور صرف ریاستی محاصل کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس کیلئے مرکزی محاصل ذمہ دار نہیں؟ جس طرح آپ ہندو۔ مسلم کی بحث میں اُلجھ گئے ہیں۔ اس طرح آپ پٹرول اور ڈیزل پر مرکز بمقابلہ ریاست بحث اور ریاستوں میں بی جے پی مقابلہ غیربی جے پی بحث میں اُلجھ گئے ہیں تاکہ آپ بھول جائیں کہ یہ کیسے؟ پٹرول سستا ہونا چاہئے؟ یاد رہے جب پٹرول 70 روپئے تھا تب بھی بھارت بند تھا، آپ کتنے ناراض تھے؟ جب پٹرول کی قیمت 80 روپئے فی لیٹر تک پہنچ گئی تب بھی آپ نے صبر کیا، 80 روپئے فی لیٹر اور پچھلے سال 100 روپئے فی لیٹر ہوگیا۔ اس کے بعد سے 100 روپئے فی لیٹر بنیادی قیمت برقرار ہے۔ اب آپ کو یہ نظر نہیں آرہا ہے۔ اس لئے 111 مقابلہ 121 روپئے قیمت کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں تاکہ آپ چاند چھوڑ کر ستاروں کو دیکھنا شروع کردیں اور ستاروں کی گنتی شروع کردیں کہ کہاں 103 سے کہاں 107 اور کہاں 121 روپئے۔ سال 2012ء میں جب پٹرول کی قیمت 70 روپئے فی لیٹر ہوئی تو لوگ سڑکوں پر آگئے تب یہ اعلان کیا گیا پٹرول کی قیمت اور بھی کم ہوگی۔ اس وقت آپ کو 70 روپئے فی لیٹر کتنا زیادہ لگتا تھا۔ شاید آج کے 100 روپئے سے زیادہ، جب سے آپ مہنگائی کے حامی ہوگئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب آپ کو 100 روپئے 70 روپئے سے کم لگتے ہیں۔ اگر آپ مہنگائی کے حامی ہیں تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کو 100 روپئے فی لیٹر چھوٹا نظر آئے گا۔ اس لئے جو لوگ 70 روپئے فی لیٹر پٹرول کو بہت زیادہ سمجھتے تھے۔ انہیں اب اس سوال کی کوئی پرواہ نہیں۔ پھر کیا وزیراعظم سے مرکزی محاصل پر کوئی بحث ہوتی؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ جب وزیراعظم 2012ء میں چیف منسٹر تھے تو وہ کیا کہتے تھے؟
عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ کمائی اور آمدنی گھٹ گئی ہے۔ لوگ ہمیں یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ وہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں لیکن وہی لوگ مہنگائی کے سیاسی حمایتی بھی ہیں۔اس بحث سے کچھ نہیں ہوا لیکن لوگوں میں ایک نئی توانائی آگئی ہے۔ محاذ کھل گئے ہیں۔ بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء نے چارٹ بناکر ٹوئٹ کرنا شروع کردیا ہے کہ کسی ریاست میں پٹرول کی قیمتیں کتنی ہیں، کتنے ٹیکس ہیں۔ بی جے پی اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک پوسٹ ٹوئٹ کیا ہے۔ اس چارٹ میں 10 ریاستوں کی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ہیں۔ ان دس ریاستوں میں سے 8 غیربی جے پی ریاستیں ہیں۔ جہاں ریاستی ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ بی جے پی کی زیراقتدار مدھیہ پردیش اور بہار جیسی ریاستیں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ پوری فہرست میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر کم از کم 111 روپئے اور زیادہ سے زیادہ 121 روپئے ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مدھیہ پردیش اور بہار نے اپنے ٹیکس کم کئے ہیں۔ ٹیکس کی شرحیں کم کرنے کی زحمت کی ہیں؟ ایک اور ٹوئٹ میں ہردیپ پوری نے کہا کہ جب بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اضافی قدر ٹیکس 14.50 روپئے فی لیٹر اور 17.50 روپئے فی لیٹر کے درمیان ہے جبکہ دوسری جماعتوں کے زیراقتدار ریاستوں میں اضافی قدر ٹیکس 27 روپئے سے لے کر 32 روپئے تک ہے۔ بی جے پی قائدین کے ٹوئٹس کا مقصد صرف تنقید ہے۔ عام لوگوں کو راحت دینا نہیں ہے۔ وزیر پٹرولیم ہردیپ پوری نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ غیربی جے پی حکومتیں غیرملکی، شراب پر ٹیکس کم کرتی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل پر نہیں، کیا یہ مثال درست ہے؟ پھر آپ کو دیکھنا ہوگا کہ شراب پر کس ریاست نے کتنا ٹیکس عائد کیا ہے تب بحث کسی اور سمت جائے گی۔ دیویہ بھاسکر نے لکھا ہے کہ مدھیہ پردیش کے مقابلہ گجرات میں پٹرول 13 تا 14 روپئے سستا ہے۔ یہ کیسے ہورہا ہے؟ ایک ایسی ریاست جہاں شراب پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ پٹرول ایسی ریاست کی بہ نسبت 13 روپئے سستا ہے جہاں شراب پر ٹیکس ہے جبکہ دونوں ہی بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ بہرحال مہنگائی پر بحث کو کوئی اور سمت دے دی گئی ہے۔ عام آدمی اس مہنگائی کو صرف مرکز اور ریاست کے حساب سے نہیں دیکھتا۔ مہنگائی کا درد سیاسی ہے جو اب سیاسی حقیقت سے لاتعلق ہوچکا ہے۔