میانمار کی لیڈر سوچی کی بین الاقوامی عدالت میں پیشی

,

   

میانمار کی کسی زمانے میں مقبول ترین قائد سمجھی جانے والی کا وقار داؤ پر
ہم خاطیوں کو پھانسی کے پھندہ پر لٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں، روہنگیاؤں کے تاثرات
سوچی نے انہی فوجی جنرلوں کا دفاع کیا جنہوں نے کبھی خود انہیں ہی نظربند کیا تھا

دی ہیگ/ اوکھیا ۔ 10 ۔ ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) میانمار کی خاتون قائد آنگ سان سوچی جنہیں نوبل انعام تک دیا جاچکا ہے اور کسی زمانے میں انہیں ستم ظریفوں کا مسیحا تصور کیا جاتا تھا ۔ تاہم میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر کئے گئے ظلم و جبر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والی سوچی کا وقار دنیا بھر میں مجروح ہوا اور اب حالت ہے کہ وہ منگل کے روز دی ہیگ روانہ ہورہی ہیں ۔ جہاں وہ عدالت میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم اور ان کی نسل کشی سے متعلق الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا دفاع کریں گی ۔ 2017 ء کے فوجی کریک ڈاؤن میں روہنگیا حواتین کی عصمت ریزی ، مردوں کا قتل عام اور دیگر ظلم و جبر جب ناقابل برداشت ہوگیا تھا تو روہنگیاؤں نے میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی (جواب بھی جاری ہے)۔ سوچی کو بین الاقوامی عدالت میں پیش کیا جائے گا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ مغربی افریقی ملک گمبیا ایسا ملک بن گیا جس نے سوچی کو میانمار کی خونریزی کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی عدالت میں کھینچا کیونکہ سوچی نے 1948 ء کے جنیو سائیڈ کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی تھی۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے باہر سوچی کے پہنچنے پر ان کے حامی اور مخالفین زبردست احتجاجی مظاہرہ کرنے والے ہیں ۔ سوچی نے ایک ایسا زمانہ بھی دیکھا ہے جب انہیں جمہوریت کی حامی ایک انسانیت نواز قائد تصور کیا جاتا تھا اور ان کی قدر و منزلت بالکل ایسے ہوا کرتی تھی جیسے مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا کی تھی ۔ روہنگیاؤں کے مصائب سے آنکھیں پھیر لینا سوچی کو مہنگا پڑ گیا اور ان کی (سوچی) شبیہہ کو کافی نقصان پہنچا کیونکہ انسان کا وقار اگر داؤ پر لگ جائے تو اس کیلئے زندگی کے کوئی معنی باقی نہیں رہتے۔ 74 سالہ سوچی نے روہنگیاؤں پر ظلم ڈھانے والے انہی فوجی جنرلوں کا دفاع کیا جنہوں نے کبھی خود انہیں (سوچی) نظر بند کر رکھا تھا ۔ اس کیس کی سماعت کا بنگلہ دیش کو بھی بے چینی سے انتظار ہے کیونکہ ایک غریب ملک ہونے کے باوجود اس نے لاکھوں روہنگیاؤں کو پناہ دے رکھی ہے ۔ اس موقع پر اگست 2017 ء میں راکھین اسٹیٹ کے موضع تولا تولی میں ایک روہنگیا خاتون نور کریمہ نے کہا کہ وہ عالمی عدالت سے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ اس کے بھائیوں اور دادا ، دادی کو فوجی کریک ڈاؤن کے دوران ہلاک کردیا گیا تھا ۔ روہنگیاؤں کو بھی پتہ ہے کہ آنگ سان سوچی اس وقت دی ہیگ میں عالمی عدالت میں پیش ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوچی ان تمام ظلم و جبر کا جواب دیں جو انہوں نے روہنگیاؤں پر کئے تھے جہاں وہ اپنے دفاع کے لئے گئی ہوئی ہیں ۔ اسی طرح ایک بیوہ روہنگیا خاتون سعیدہ خاتون نے کہا کہ وہ خاطیوں کو پھانسی کے پھندہ پر لٹکتا دیکھنا چاہتی ہے ۔ سعیدہ خاتون کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین ، شوہر اور بچوں کو ہلاک کردیا گیا تھا ۔