میاں بیوی میں سمجھوتہ وقت کا اہم تقاضہ

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
خاندان مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعہ وجود میں آتا ہے نکاح کے بعد وہ ایک دوسرے کے رفیق بن جاتے ہیں سکھ دکھ میں ہو یا زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ ایک خاص نوعیت کا تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان پائی جانے والی رفاقت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ جب تک دونوں اپنے اصول اور فرائض کو خوش اخلاقی سے انجام دیتے رہے تب تک ازدواجی زندگی خوشگوار ہوسکتی ہے، دیکھا گیا ہیکہ موجودہ پرآشوب حالات میں میاں بیوی کے تعلقات نااتفاقی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بعض اوقات شوہر کی کم آمدنی کی وجہ سے گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں دوسری طرف ٹنشن بھی گھریلو جھگڑوں میں اضافہ کا سبب ہیں۔ طلاق اور خلع کے واقعات ہم کبھی نہیں سنا کرتے تھے آج روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا ہیکہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں کس کا قصور ہوتا ہے لیکن فریقین میں کوئی نہ کوئی یا دونوں قصوروار ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے شرعی حقوق نظرانداز کرنے کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں۔ عورت کو چاہئے کہ شوہر کی آمدنی کی حیثیت سے زیادہ خرچ نہ مانگے بلکہ جو کچھ ملے اس پر صبر و شکر کے ساتھ زندگی بسر کرے، اگر کوئی چیز پسند آجائے اور شوہر کی مالی حالت ایسی نہیں کہ وہ اس کو لاسکے تو ہرگز شوہر سے اس کی فرمائش نہ کرے اور اپنی پسند کی چیز نہ ملنے پر کبھی بھی میکہ یا دوسروں کے سامنے شکایت کرے بلکہ بہترین طریقہ یہ ہیکہ عورت شوہر سے کسی چیز کی فرمائش نہ کرے کیونکہ بار بار فرمائشوں سے عورت کی قدر و اہمیت گھٹ جاتی ہے۔ ہاں اگر شوہر خود پوچھے کہ میں تمہارے لئے کیا لاؤں تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی مالی استطاعت دیکھ کر اپنی پسند کی چیز طلب کرے اور جب شوہر اپنی پسند کی چیز لائے تو وہ پسند آئے یا نہ آئے وہ اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ایسا کرنے سے شوہر کا دل خوش ہوگا اور اس کا حوصلہ بلند ہو جائے گا۔ اگر شوہر کی آمدنی کم ہوتو ہرگز شوہر پر بیجا فرمائش کا بوجھ نہ ڈالیں اگر بیوی کے بیجا مطالبات اور فضول خرچی کی تکمیل کے لئے شوہر کو مجبوری میں کثیر قرض حاصل کرنا پڑتا ہے اور قرض و قت پر ادا نہ کرنے پر قرض دار گھر تک پہنچ جاتے ہیں اور بار بار گھر کے چکر لگاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے شوہر کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے اور موقع کے لحاظ سے گھر میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔
ماضی میں جب کبھی بھی آپسی تنازعات پیدا ہوئے تو فریقین باہمی سمجھوتہ کرلیا کرتے تھے اور اگر کوئی معاملہ سنگین نوعیت کا ہوتا تو ایسے میں فریقین کلام پاک کی قسم کھاتے ہوئے حقیقت کو تسلیم کرلیا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں افسوس اور شرمناک بات یہ ہیکہ عام طور پر لوگ صرف اپنی ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور فریق مخالف کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچانے کے حربہ اختیار کئے جاتے ہیں اور انہیں کیس کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور اثر و رسوخ کا استعمال کیا جاتا ہے اور فریق مخالف پر جھوٹے الزامات کے ذریعہ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی جاتی ہے اور بعد ازاں کیس کو رفہ دفعہ (Withdrawl) کرنے کے لئے دلال (Agent) کے ذریعہ لاکھوں روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور انکار کرنے پر مینٹیننس (Maintenance) اور (DVCACT) کیس کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور کیسوں کا سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہتا ہے۔ فریق مخالف کو وکیل کی فیس اور دوسرے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور دونوں خاندان کا چین و سکون، وقت اور پیسہ تباہ ہوتا ہے۔ عدالت کے کئی برسوں تک چکر کاٹنے پڑتے ہیں جس سے ذہنی اور جسمانی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ دشمنی اور بڑھتی جاتی ہے اگر لڑکی کو اولاد ہوتو بچوں کی تعلیم، پرورش اور ان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہیکہ بعض رشتہ دار یکطرفہ بات سن کر یقین کرلیتے ہیں اور فریق مخالفہ پر جھوٹے الزامات عائد کرنے کے لئے لڑکی کو پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور خود پولیس اسٹیشن میں فریق مخالف کے خلاف جھوٹی گواہی اور درخواست پر دستخط کرتے ہیں اور فریق مخالف کو صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیتے بلکہ کچھ عذر بتاکر جلد بازی میں میاں بیوی کو جدا کردیتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں سب سے نازک اور حساس مسئلہ ساس اور بہو کا ہوتا ہے۔ باشعور اور صالح شوہر اگر اسلامی تعلیمات سے واقف ہوتو وہ دونوں کو خوش رکھ سکتا ہے۔ اس طرح سے وہ نہ تو ماں کا نافرمان ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کے حقوق میں لاپرواہی کرتا ہے۔
اسلام نے ماں اور بیوی دونوں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور دونوں کو ان کا صحیح مقام دیا ہے۔ بشرطیکہ اس پر عمل کرلے اور اس سلسلے میں ماں اور بیوی دونوں ہی اس میں اس کا ساتھ دیں۔ اسلام نے میاں بیوی کی سرگرمیوں کے بارے میں دائرے متعین کردیئے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرہ عمل ہے جس میں ایک کام کرنا ہے اور ہر ایک سے اس کے تعلق سے سوال کیا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے تم میں سے ہر وہ شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے متعلقین اور ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کے متعلق ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اپنے بچوں کی ذمہ دار ہے۔ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے۔ (صحیح بخاری)
ان حالات میں اگر میاں بیوی میں کشیدگی بڑھ جائے تو طلاق یا خلع میں عجلت نہ کریں بلکہ دونوں، اور اگر لڑکی کو اولاد ہو تو ان سب کے مستقبل کا سوچیں ۔ اختلافات ازدواجی زندگی کا ایک حصہ ہے ایسے وقت میں قرآن اور حدیث کی تعلیم یہ ہیکہ خاندان کے کسی ہمدرد شخص کے ذریعہ اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ دیکھا گیا ہیکہ لڑکا، لڑکی طلاق یا خلع کے لئے راضی نہیں ہوتے ہیں جبکہ ان کے والدین جبر کے ذریعہ انہیں طلاق یا خلع لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ خلع اور طلاق کے روک تھام کے لئے والدین ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں فریقین کے ساتھ ساتھ بعض والدین کی کونسلنگ بھی ضروری ہے کیونکہ عدالتی کشاکش بڑی طویل ہوتی ہے اور عدالت کے کئی سال تک چکر کاٹنا پڑتا ہے اس کے علاوہ وکیل کی فیس اور دوسرے اخراجات پیسہ، وقت، جسمانی اور ذہنی سکون ختم ہو جاتا، ان حالات میں صلح صفائی و مفاہمت ہی بہترین حل ہے۔