میدان جنگ تیار اور سنگھ کے ہتھیار

   

پی چدمبرم ، سابق مرکزی وزیر داخلہ
ایک انگریزی ٹیچر اپنی کلاس کولفظ” HYDER BOLE” سمجھانا چاہتی ہے ، اپنے طلبہ کے سامنے اس کی تعریف و توضیح اور تشریح کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلہ میں ایک مثال دینے کی خواہاں ہوتی ہے تو وہ ستمبر 2023 کے ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) کے بلیٹن میں شامل ذیل کے جملہ کا حوالہ دینے سے بہتر اور کوئی کام نہیں کرسکتی۔
’’ ستمبر 2023 میں زمین کی کشش ثقل کا مرکز انڈیا منتقل ہوا ہے کیونکہ بیشتر طاقتور و بااثر ممالک، ملکوں کے گروپوں اور عالمی تنظیموں نے انڈیا کو ایک عالمی رہنما کے طور پر دیکھتے ہوئے نئی دہلی میں جمع ہونے کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھا ‘‘۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق زمین کی کشش ثقل کا مرکز روم (2021) سے بالی (2022) منتقل ہوا اور پھر بالی سے نئی دہلی (2023) میں اس کی منتقلی عمل میں آئی اور یہ مرکز 2024 میں برازیل کے دارالحکومت ریوڈی جنیرو کو منتقل ہوگا۔ چونکہ کشش ثقل کا مبدامنتقل ہوا تھا اس لئے ہم نے جھٹکے محسوس کئے۔
مثال کے طور پر منی پور کی آگ 3 مئی کوبھڑک اُٹھی اور ہنوز اس کے شعلے بلند ہیں۔ دوسری طرف کشمیر میں مسلسل دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں ۔ زمینی و پہاڑی تودوں کے کھسکنے اور سیلابی بارش نے ہماچل پردیش اور بعض دوسری ریاستوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے اور اے آئی اے ڈی ایم کے نے غیر متوقع طورپر بی جے پی سے ٹاملناڈو میں اپنا اتحاد ختم کرلیا۔
جملہ پریڈ : کشش ثقل ( طاقت ) کے منبع و مرکز کی منتقلی کے نتیجہ میں ہم مزید اعلانات اور ایونٹس کی توقع کرسکتے ہیں، ویسے بھی ایک ایونٹ کا ستمبر 2021 کو انعقاد عمل میں آیا۔ میں بات کررہا ہوں خواتین تحفظات بل کی ، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خواتین تحفظات جملہ بل پارلیمنٹ میں مذکورہ تاریخ کو منظور کیا گیا اور اس بل پر 2029 کے عام انتخابات کے بعد عمل آوری ہوسکتی ہے ۔ دوسرے جملے جو بننے کے عمل سے گذر رہے ہیں ’ وہ ون نیشن ون الیکشن‘ اور یونیفارم سیول کوڈ ( یکساں سیول کوڈ) ہیں۔ ہاں! ایک بات ضرور ہے کہ ON OE (ون نیشن ون الیکشن ) کی ملکیت کو لیکر زبردست مسابقت پائی جاتی ہے (کووند کمیٹی بمقابلہ لاء کمیشن ) اور ( اُتر کھنڈ بمقابلہ آسام بمقابلہ مدھیہ پردیش ) کے درمیان زبردست مقابلہ آرائی پائی جاتی ہے۔
دوسری طرف آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے آر ایس ایس کارکنوں کو اس جارحیت کا جواب دینے اس کا سدباب کرنے کی ہدایت بھی دی، اس لئے خود کو گرجا گھروں، پادریوں ، مبلغین ( پاسٹرس )، مشنریز اور عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات پر حملوں کیلئے تیار رکھنا ہوگا اور خاص طور پر بین مذہبی نوجوان جوڑوں کو مذہبی و اخلاقی بریگیڈس سے چوکس رہنا چاہیئے جو ہندو لڑکیوں کی عصمتوں کے تحفظ کیلئے ایسے جوڑوں کی نہ صرف تلاش کرتے ہیں بلکہ اُن پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے ان لوگوں نے شادی کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے اور بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہوں( مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ان ہندو لڑکوں کی حرمت کا تحفظ کون کرے گا جو غیر ہندو لڑکیوں کے ساتھ پائے جائیں )
شواہد دیجئے : … مجھے تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے غیرمصدقہ الزامات پر بڑی حیرانی ہے، برائے مہربانی ان ہزاروں لاکھوں بچوں سے دریافت کیجئے جو عیسائی تنظیموں کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں اور کالجس میں زیر تعلیم ہیں (کیونکہ عیسائی مشنریز کے تحت چلائے جانے والے اسکولس و کالجس تعلیمی معیار کے لحاظ سے معیاری ہوتے ہیں ) تو ان میں سے کتنے طلبہ کو عیسائیت قبول کروانے کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا ؟ برائے مہربانی خود اپنے آپ سے پوچھئے کہ آپ کے سامنے ٹاون یا گاؤں میں گذشتہ سال کتنی بین مذہبی شادیاں ہوئیں؟ مسٹر نارائن مورتی نے ایک مرتبہ کیا خوب کہا تھا : ’’ میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں، باقی سب چیزوں کیلئے میرے پاس ڈیٹا لائے ‘‘ یعنی آپ جو کچھ کہتے ہیں اس کے اعداد و شمار اس کی تفصیلات پیش کیجئے ، آیا آر ایس ایس سربراہ ہمیں تبدیلی مذہب اور لوجہاد سے متعلق ڈیٹا ( تفصیلات ) فراہم کریں گے؟۔
جہاں تک ہمارے وزیر اعظم کا سوال ہے عزت مآب وزیر اعظم میدان جنگ میں داخل ہوچکے ہیں، انہوں نے کھلے عام کہا ہے کہ سناتن دھرم پر حملے ہورہے ہیں۔ مسٹر بھاگوت نے ’’ تبدیلی مذہب ‘‘ اور ’’ لوجہاد ‘‘ آر ایس ایس کے اسلحہ خانہ سے حاصل کئے ہیں جبکہ خواتین تحفظات بل وزیر اعظم کی جانب سے خواتین کو تحفہ کے طور پر پیش کیا جائے گا ( حالانکہ یہ بل حقیقت میں ایک دیوالیہ ہوتی بینک کے پوسٹ ڈیٹیڈ چک کے مانند ہے ) ہاں ! آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ G-20 سربراہ اجلاس کے ویڈیوز اور تقاریر کو ویژیول اور سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پر لازمی طور پر بڑے فراخدلانہ انداز میں ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا تاکہ حکومت اور اس کے بھکتوں کے اس دعویٰ کو تقویت دی جاسکے کہ انڈیا وشوا گرویا عالمی لیڈر بن گیا ہے۔
اتحاد اور ایجنڈہ : … دوسری طرف INDIA کے شراکت داران عوامی مسائل کو اٹھانے کیلئے تیاریاں کررہی ہیں جنہیں وہ سمجھتے کہ عوا م کی زندگیوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ عوام کیلئے پریشانیوں ان کے مسائل جیسے مہنگائی، بیروزگاری، نسلی اور فرقہ وارانہ تصادم کے بڑھتے واقعات، نفرت انگیز تقاریر و بیانات اور نفرت پر مبنی جرائم کے ساتھ ساتھ آزادی کو سلب کئے جانے ( آزادی اظہار خیال ) ، ریاستوں کے حقوق پر غیر قانونی ضرب لگانے ، ان حقوق کو ریاستوں سے چھیننے، وفاقی ڈھانچہ کو نقصان پہنچانے، دستور پر حملے، انصاف کی عدالتوں کو خطہ میں ڈالنے، چینی دراندازی، دہشت گردانہ واقعات، معاشی نمو کی سُست روی، شہریوں کے درمیان عدم مساوات، صنعت کاروں و سرمایہ کاروں کی بیجا مدد و حوصلہ افزائی، بہبودی اقدامات میں کمی، قومی قرض میں اضافہ، انٹلیجنس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے بیجا استعمال ، پارلیمانی اداروں اور قراردادوں کی اہمیت گھٹانے، بڑھتی مرکزیت اور صرف ایک شخصیت کی تشہیر جیسے مسائل بھی شامل ہیں جس کے ذریعہ بی جے پی یہ اُمید کررہی ہے کہ وہ دولت، طاقت اور قانون کے بیجا استعمال کے ذریعہ اپوزیشن کے حملوں کا مقابلہ کرے گی۔آج اگر آپ دیکھیں تو ہمارے ملک کی معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بیروزگاری کی جب ہم بات کرتے ہیں ، اگسٹ 2023 میں بیروزگاری کی شرح 8.1 فیصد رہی، نوجوانوں میں بیروزگاری (15-24 سال ) 2022 میں 23.22 فیصد رہی۔ گریجویٹس میں بیروزگاری کی شرح 42 فیصد پائی جاتی ہے۔ ’’ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2023 رپورٹ کے مطابق اگسٹ2023 میں 1,91,60,000 مرد و خواتین نےMGNREGS کے تحت کام کی مانگ کی۔
قیمتیں اور مہنگائی : … آر بی آئی بلیٹن کے مطابق 23 اگسٹ کو سی پی آئی افراطِ زر 8.8 فیصد، فیول اور لائٹ افراطِ زر 4.3 فیصد اور غذائی 9.2 فیصد رہا۔