میرٹھ (اتر پردیش ): اترپردیش کے شہر میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے انتظامیہ نے کیمپس میں نماز ادا کرنے پر طالب علم خالد دھان کو گرفتار کرکے جیل بھیجوا دیا جس کیخلاف 400 سے زائد طلبا نے یونیورسٹی میں احتجاج کیا ۔پولیس نے احتجاجی طلبا پر لاٹھی چارج کیا آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔پولیس نے 6 کو جبراً گرفتار کر لیا۔احتجاجی طلبا کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں پوجا کی اجازت ہے تو رمضان کے مقدس مہینے میں روزہ رکھنے والے مسلم طلبا نماز کیوں نہیں پڑھ سکتے۔احتجاج میں شریک ایک اسٹوڈنٹ لیڈر شان محمد نے پولیس پر نا زیبا سلوک کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مظاہرین کو مذاکرات کیلئے پولیس اسٹیشن طلب کیا تھا لیکن ان میں سے کئی کو حراست میں لے لیا ۔ احتجاج کا محرک ایک وائرل انسٹاگرام ویڈیو تھا جس میں طلباء کو یونیورسٹی کیمپس میں نماز ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو نے مسلمانوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن دونوں طرح کی نفرت انگیز مہمات کو جنم دیا۔22 سالہ خالد کو اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں 50 کے قریب طالب علموں کو 13 مارچ کو ہولی سے ایک دن قبل نماز ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ہندوتوا گروپوں نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ویڈیو کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا تھا۔
اس کے جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے خالد کو تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت معطل کر دیا اور حکام سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔