پاکستانی عوام اور فوج کے اظہاریگانگت پر شکریہ
یہ فیصلہ ایک مثال ہے کہ دفاعی وکیل کااس کے موکل کیساتھ کیسے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ ہمیں عدالت
میں اپنی صفائی کا موقع ہی نہیں دیا گیا
بستر علالت سے منگل کو سنائے گئے فیصلہ پر مشرف کا ردعمل
اسلام آباد ۔ 19 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف جو اس وقت دوبئی میں سخت علیل ہیں، نے بستر علالت سے ہی پاکستان کی ایک عدالت کی جانب سے انہیں ملک کا غدار قرار دیتے ہوئے سنائی گئی سزائے موت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے شخصی انتقام سے تعبیر کیا۔ عدالت کا یہ فیصلہ حالانکہ منگل کو سنایا گیا تھا لیکن پرویز مشرف کا ردعمل آج ہی سامنے آیا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی فوج نے بھی مشرف کو سنائی گئی سزائے موت پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ سزائے موت سنائے جانے کے فوری بعد ملک گیر پیمانے پر ریالیاں نکالی گئیں۔ مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ (APML) کی جانب سے جو ویڈیو فوٹیج جاری کی گئی ہے اس میں مشرف کو واضح طور پر اس فیصلہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے فیصلے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جہاں نہ دفاعی وکیل کو اور نہ ہی موکل کو کوئی بات کہنے کی اجازت دی گئی۔ دفاعی وکیل کو اپنے موکل کے دفاع میں جرح کرنے کا پورا حق ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔ مشرف نے کہا کہ اس مقدمہ کی سماعت 2014ء سے 2019ء کے درمیان وقفہ وقفہ سے جاری رہی لیکن عدالت نے مشرف کی ان درخواستوں کو ہمیشہ مسترد کردیا جہاں انہوں نے دوبئی میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی خواہش ظاہر کی تھی جہاں وہ 2016ء سے مقیم ہیں کیونکہ پاکستان میں ان کی صحت کو لاحق خطرہ کی وجہ سے بہتر علاج کیلئے انہوں نے دوبئی روانگی اختیار کی تھی۔ اب حالت یہ ہیکہ انہیں اپنی صحت سے متعلق اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے اور جاریہ ماہ ہی انہیں ہاسپٹل میں شریک کیا گیا ہے۔ مشرف نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا ہے اور جو بھی فیصلہ سامنے آیا ہے اس پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس کیس کی ملک کے دستور کی دہائی دیتے ہوئے سماعت کئے جانے کی قطعی ضرورت نہیں تھی لیکن ملک میں چند عناصر ایسے ہیں جو شخصی انتقام پر اتر آئے ہیں جس سے ان کا سیاسی مفاد وابستہ ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان سے (مشرف) اظہاریگانگت کیا اور ایک ایسے وقت جب وہ (مشرف) بسترِ علالت پر ہیں، مزید ذہنی ایذاء رسانی سے انہیں محفوظ رکھا۔ تصور کیجئے کہ کوئی سابق حکمراں بستر علالت پر ہو اور اس کا بیان صفائی سنے بغیر اسے سزائے موت سنا دی جائے تو اس پر کیا گزرے گی؟ تاہم پاکستانی عوام اور فوج نے میرے لئے جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ زخموں پر مرہم رکھے جانے کے مترادف ہے۔