ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
مسلمان عبادت کے لئے مسجد کو جاتے ہیں‘ ہندو پوجا کے لئے مندر آتے ہیں ‘ عیسائی Mass کے لئے چرچ کا رخ کرتے ہیں تو سکھ ماتھا ٹیکنے کی غرض سے گردوارے میں حاضر ہوتے ہیں لیکن درگاہیں ایسے مرکز ہیں جہاں پر مسلمان بھی آتے ہیں ہندو بھی آتے ہیں ، عیسائی بھی آتے ہیں اور سکھ بھی آتے ہیں۔
روحانی سکون کے لئے درگاہوں پر حاضری دینے کے رجحان میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے دہوں میں یہ بات نہیں تھی۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ صوفی سنگیت کے سبب لوگوں میں اولیائے اللہ کی تعلیمات کو تلاش کرنے کا شوق و ذوق زبردست فروغ پارہا ہے۔ یہ وجہ عام لوگوں خاص طورپر غیر مسلم اشخاص میں زیادہ ہے لیکن سب سے بڑی وجہ وہ ہے جسے وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ اولیاء اللہ تو سارے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن خاص طورپر ہندوستانی صوفیوں کے فیوض کے حصول کے لئے مغرب میں بھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جب درگاہوں کی بات آتی ہے تو ذہن میں فی الفور اوقاف کا خیال آجاتا ہے۔ اسلامی قوانین میں وقف انتہائی اہم جز ہے جو انسانی سماج کی تعمیر و ترقی اور فلاح وبہبود کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے ذریعہ غریبوں کو روٹی کی فراہمی ، بیماروں کی تیمار داری ، بیواؤں ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت ، قوم کے بچوں کی تعلیم سے آراستگی ، مدارس، مکاتب، جامعات اور دیگر ٹیکنیکل اور انڈسٹرئیل سنٹرس کا قیام ، دواخانوں کی کشادگی اور ان جیسے انگنت کام انجام دیئے جاسکتے اور ان کاموں کو منظم ڈھنگ سے انجام دینا سماج کی فلاح کے لئے بے حد ضروری ہے۔ان عظیم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کی مختلف ریاستوں نے وقف بورڈس کی تشکیل دی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے یہ نکمے ، لاچار اور بدعنوانیوں میں لت پت ادارے موقع پرستوں کا تجارتی اڈہ بنے ہوئے ہیں۔ سنٹرل وقف بورڈ بھی انتہائی ناکارہ ادارہ ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ مختلف ریاستوں میں پھیلے ہوئے وقف بورڈس کی رہنمائی کرتا الٹا وہ خود مبینہ طور پر بدعنوانیوں میں ملوث ہوگیا ہے۔
ہندوستان میں سب سے زیادہ جائیدادیں اور اراضیات ریلوے کے پاس ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہماری اوقافی جائیدادیں آتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اوقافی جائیدادوں سے 1.2لاکھ کروڑ روپیوں کی آمدنی ہوتی ہے۔ اگر ان اداروں کو صحیح ڈھنگ سے چلایا جائے تو مزید 10 فیصد کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا ایک ہزار کروڑ سے زائد رقم ہمیں ہر سال حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر 1.2لاکھ کروڑ روپئے کی آمدنی کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچایا جائے تو ہندوستان میں ایک بھی مسلمان غریبی کی سطح سے کم نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں جو رقم بتائی گئی ہے وہ بہت بڑی ہے۔ زمینی سطح پر ایسا نہیں دکھائی دیتا یا پھر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر یہ رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے اوقافی اداروں کے معاملات فلاحی منصوبوں میں کم ، عدالتوں میں زیادہ بند ہیں۔ مسلمانوں کی بے شمار وقف جائیدادیں سرکاری اداروں کی جانب سے استعمال کی جارہی ہیں۔ یعنی سرکاریں مسلمانوں کا حق دینے کی بجائے ان کی دولت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
یہاں مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ سرور کونین حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلے وقف کا تصور اپنے صحابیوں کے ساتھ مسجد قبا کی تعمیر کرکے دیا۔ ایک یہودی کی جانب سے آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے سات باغوں کو بھی حضور اکرم ﷺ نے وقف کردیا۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ وقف کی ہوئی جائیدادیں کس قدر اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں کیونکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے ذریعہ وقف کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے۔
جہاں تک ہندوستان میں مقامات مقدسہ کے تحفظ کا سوال ہے انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گودی میڈیا کے بے شمار پروپگنڈوں کے باوجود آج بھی مساجد کی چوکھٹوں پر ہزاروں غیر مسلم مائیں اور بہنیں اپنے نونہالوں کے ساتھ نمازیوں کے باہر آنے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ وہ ان کے بیمار بچوں پر دعا پڑھ کر پھونکیں۔ جہاں تک درگاہوں کا سوال ہے یہاں پر بھی ساٹھ فیصدزائرین غیر مسلم ہی ہوتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانیوں کے باوجود عام ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی خاص فاصلہ نہیں دکھائی دیتا۔ آج بھی ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جہاں پر غیر مسلم بھائی مسلم بھائیوں سے اپنے جانور ذبح کرواتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں دوچار واقعات کے سوا ایسی کوئی بات نہیں دکھائی دی کہ ہمارے ملک میں اسلامی مقدسات کو کوئی نقصان پہنچایا گیا۔ ہاں چناؤ کے پیش نظر کوئی نہ کوئی Symbolic Action ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور وہ بخار کی طرح دو یا تین دن میں ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کی روشنی میں وقف جائیدادوں کو مقدس ہی سمجھنا پڑے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں غیروں سے زیادہ اپنوں ہی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ بقول شاعر
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیر وں میں کہاں دم تھا
میری کشتی وہیں ڈوبی جہاں پانی کم تھا
بہرحال عاملانہ اختیارات کی عدم موجودگی کے سبب وقف بورڈس مجہول ہوگئے ہیں۔ ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر دوراں ہیں۔ قومی سطح پر تمام مسلمانوں کو یک جٹ ہوکر بیٹھنا ہوگا تاکہ بورڈس کو ہندو انڈومنٹ کی طرح عاملانہ اختیارات ملیں جس کے ذریعہ وہ اپنی جائیدادوں کا تحفظ خود اپنے بل بوتے پر کرسکیں۔