مجھ میں انا نام کی کوئی چیز نہیں ۔ پنجاب کانگریسصدر کی حیثیت سے نوجوت سنگھ سدھو کا پہلا خطاب
چندی گڑھ : نوجوت سنگھ سدھو نے آج پنجاب کانگریس صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور اس موقع پر وہاں موجود ہزاروں افراد نے ان کے نام کا نعرہ لگایا اور کرکٹ سے سیاستداں بننے والے سدھو نے بھی ہوا میں تخیلی بلہ لہراتے ہوئے گویا اپنے مداحوں کا جواب دیا۔ شہ نشین پر نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ بھی موجود تھے۔ سدھو کے پہلے ہی خطاب سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ پنجاب میں موجود مختلف امور سے سنجیدگی اور چابکدستی سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریندر سنگھ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کریں گے۔ ان کے (سدھو) پاس انانیت نہیں ہے۔ آج کانگریس ایک بار پھر متحد ہوگئی ہے۔ سدھو نے اپنے روایتی جارحانہ انداز میں کہا کہ اپوزیشن یہی سمجھ رہی تھی کہ کانگریس میں پھوٹ پڑ گئی ہے لیکن اپوزیشن کو سمجھ لینا چاہئے کہ کانگریس اب متحد ہوچکی ہے اور اب ہمیں تبدیلی (پریورتن) والی سیاست پر عمل پیرا ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی ان کی مخالفت کی ہے دراصل انہوں نے ہی مجھ میں بہتری پیدا کی۔ سدھو کا اشارہ پارٹی میں پائے جانے والے حالیہ بحران کی جانب تھا۔ ریاست میں بجلی کی شدید قلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سدھو نے کہا کہ ہم بجلی 18 روپئے میں کیوں خریدیں؟ اس سے آخر کس نوعیت کا سمجھوتہ ظاہر ہوگا؟ اس چوری کو آخر پکڑا کیوں نہ جائے؟ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ امریندر سنگھ اور نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان کئی ماہ سے تنازعہ چل رہا تھا لیکن سدھو کے پنجاب کانگریس کے صدر بننے کے بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات کسی حد تک ختم ہوئے حالانکہ امریندر سنگھ نوجوت سنگھ سدھو کو پنجاب کانگریس کا صدر بنانے کیلئے مکمل طور پر راضی نہیں تھے لیکن لمحہ آخر میں انہوں نے حامی بھر لی جس کی وجہ چائے کی وہ پارٹی ہے جس کا اہتمام چندی گڑھ کے پنجاب بھون میں کیا گیا تھا۔ بہرحال اسی ’’ٹی پارٹی‘‘ نے دونوں کو قریب لانے میں اہم رول ادا کیا جہاں سدھو نے قبل ازیں امریندر سنگھ پر کی گئی سخت تنقیدوں کیلئے معذرت خواہی کرلی۔ سدھو نے کہا کہ اب ہمارے اختلافات ایک بھولی بسری بات بن چکی ہے۔ امریندر سنگھ نے کہا کہ جس وقت وہ فوج میں تھے یعنی 1963ء میں اسی وقت نوجوت سنگھ سدھو کی پیدائش ہوئی تھی۔ میرے سدھو کے خاندان سے بہت پرانے روابط ہیں۔ جب 1970ء میں میں نے فوج سے سبکدوشی اختیار کی اس وقت میری ماں نے مجھ سے سیاست میں داخلہ لینے کی بات کہی اور میری ملاقات سدھو کے والد بھگوان سنگھ سدھو سے کروائی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ سدھو کے خاندان سے ان کے (امریندر) کتنے پرانے تعلقات ہیں۔