مارکنڈیا ٹاٹجو، سابق جج سپریم کورٹ
آج ہندوستانی میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی آواز اور عوام کے اعتمار سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ میڈیا دراصل گودی میڈیا بن گیا ہے۔ اس ضمن میں ممتاز صحافی اور میگسیسے ایوارڈ یافتہ شخصیت روش کمار کا یہ کہنا کہ جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے اور ہندوستانی عوام کی خدمت کرنے کی بجائے ہمارا میڈیا زیادہ تر پہلے ستون کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ روش کمار کا یہ بیان ہمارے ذہنوں میں ایک کلیدی سوال پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ میڈیا کا رول یا کردار کیا ہے؟
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو برطانیہ اور فرانس میں ذرائع ابلاغ کو 17 ویں اور 18 ویں صدی میں عروج حاصل ہوا اور میڈیا جاگیردارانہ تسلط کے خلاف عوام کے ترجمان کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔ وہ ایسا وقت تھا جبکہ اقتدار کی مختلف شاخیں جاگیردارانہ حکام کے ہاتھوں میں تھیں یعنی بادشاہوں اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں میں تھیں۔ ایسے میں عوام کو اپنے لئے نئے ترجمان کی تخلیق کرنی پڑی تاکہ وہ ان کے مفادات کی نمائندگی کرے۔ اس طرح میڈیا بھی عوام کے ان نئے ترجمانوں میں سے ایک تھا۔ یوروپ اور امریکہ میں میڈیا نے مستقبل کی آواز کی نمائندگی کی اور قدیم جاگیردارانہ شاخوں کی بجائے ایک نئی آواز منظر عام پر آئی۔ عظیم ادیبوں جیسے والٹیر، روسیو، تھامس پین اور دیگر نے میڈیا کو (جو اس وقت صرف پرنٹ میڈیا کی شکل میں موجود تھا اور باقاعدہ اخبارات کی شکل میں موجود نہیں تھا بلکہ کتابچوں اور پمپفلسٹ کی شکل میں موجود تھا) کا استعمال کیا اور جاگیردارانہ نظام، مذہبی تعصب و جانبداری اور توہم پرستی کے مقابلہ کے لئے میڈیا کو سامنے لایا۔ اس طرح یوروپی سماج و جاگیردانہ نظام کو عصری دور میں داخل کروانے میں میڈیا نے ایک عظیم کردار ادا کیا۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے ہمارا مقصد بھی ہندوستان کو ایک غیر ترقی یافتہ ملک سے انتہائی ترقی یافتہ اور اعلیٰ صنعتی ملک میں تبدیل کرنا ہے اگر ہم ایسے نہیں کرتے تو پھر بڑے پیمانے پر غربت، ریکارڈ بیروزگاری، ناقص غذا سے متاثر ہوکر مختلف نقائص کا شکار ہونے والے بچوں کی تکلیف دہ تعداد نامناسب نگہداشت صحت اور عوام کے لئے تعلیم کے اچھے مواقعوں کی عدم فراہمی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ ان حالات میں جبکہ ہمارا ملک ایک تاریخی تبدیلی سے دوچار ہو رہا ہے ہمارے میڈیا کی ایک ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میں ویسا ہی رول ادا کرے جیسے ماضی میں یوروپی میڈیا نے کیا تھا لیکن اس کے لئے ہندوستانی میڈیا کو کسی بھی جماعت یا حکومتی ترجمان اور حکومت کی خدمت کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کرنی چاہئے جیسا کہ امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس بلیک نے اپنے فیصلے میں کہا تھا۔ آج ضرورت اس کی بات ہے کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ یا میڈیا جاگیردارانہ نظام پر یقین رکھنے اور اسی سوچ میں مبتلا طاقتوں پر حملہ کرے مثال کے طور پر فی الوقت ذات پات اور فرقہ پرستی، مذہبی تعصب اور معاشرہ کو مذہبی خطوط پر باٹنے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے۔ ان کے خلاف ہلہ بول دے۔ کچھ سال پہلے ممبئی میں لیکمی فیشن ویک کے دوران ایک فیشن شو کا اہتمام کیا گیا جس میں ماڈلس نے کاٹن کے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے اس ایونٹ کو زائد از 500 فیشن لائیف اسٹائل جرنلسٹوں نے کور کیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ماڈلس کاٹن کا لباس زیب تن کررہی تھیں تو دوسری طرف کاٹن کی پیداوار کرنے والے کسان خودکشی کررہے تھے اور یہ خودکشیاں بہت دور نہیں بلکہ جس مقام پر فیشن شو منعقد ہوا تھا اس سے کچھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ودھربھا میں یہ ہو رہی تھیں۔ کسی نے بھی کسانوں کی خودکشی کے واقعات کا کوریج منظر پر عام پر نہیں لایا سوائے چند مقامی صحافیوںکے۔
کئی ٹی وی اینکرس نے اپنے صحافتی اخلاقیات کو فراموش کردیا اور وہ صرف پروپگنڈہ میں مصروف رہے۔ بعض مرتبہ اس میڈیا نے عجیب و غریب حرکات بھی کیں اور حقائق کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا۔ کچھ عرصہ قبل تبلیغی جماعت نامی ایک تنظیم نے میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ میڈیا نے اس جماعت کو کورونا وائرس پھیلانے والوں کی جماعت قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہ تبلیغی جماعت والوں کو میڈیا نے کورونا جہادی اور کورونا بموں کے نام تک دے ڈالے تھے۔ میں نے شخصی طور پر اس معاملہ کی تحقیقات کیں اور یہ پایا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے تھے وہ غلط تھے۔ تبلیغی جماعت دراصل ایک مذہبی تنظیم ہے جس کے اجلاس دہلی میں واقع مرکز میں سال بھر میں ایک یا دو مرتبہ ہوتے ہیں جہاں شرکت کے لئے مختلف ممالک سے مسلمان آتے ہیں۔ اس سال بھی انڈونیشیا، ملائیشیا، قازقستان، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے بے شمار لوگ اجتماع میں شرکت کے لئے آئے تھے اور بعض بظاہر وائرس سے متاثر دکھ رہے تھے۔ یہ جانے بغیر یہ کہنا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر بیماری لائی تھی اور انکا مقصد اس بیماری کو ہندوستان میں پھیلانا تھا بالکل غلط ہے اور ایسا پروپگنڈہ میڈیا کے بعض حلقوں نے کیا۔ ان کا یہ پروپگنڈہ بالکل غلط تھا (اور عدالت نے بھی یہی پایا) گودی میڈیا کے جانبدارانہ و متعصبانہ رویہ کی ایک اور مثال کسانوں کا جاری احتجاجی مظاہرہ ہے۔ گودی میڈیا نے اس احتجاج کو پاکستانی، خالصستانی، ماوسٹوں اور قوم دشمنوں کی تحریک قرار دیا ہے۔ اس طرح کی متعصبانہ رپورٹنگ کی بے شمار مثالیں ہم پیش کرسکتے ہیں۔ بہرحال کوئی بھی یہ امید کرسکتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا ایک دن اپنی اس خراب صورتحال سے باہر نکل آئے گا اور بقول امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک عوام دشمن کی بجائے عوام کے کاز کے چیمپین کی طرح ابھرے گا۔ تب ہی ہندوستانی میڈیا کو عوامی احترام حاصل ہوگا اور وہ وقار حاصل کرپائے گا۔