میڈیا نے کورونا وائرس سے سبق نہیں سیکھا

   

راج دیپ سردیسائی
مارچ میں جب لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا تب میں نے اپنے ایک رفیق کار سے کچھ یوں کہا ’’ارے، ایسا لگتا ہے کہ نیوز ٹیلی ویژن نے ہندو مسلم ذہنیت کو توڑ دیا ہے کیونکہ اس وقت نیوز چیانلس کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر ڈاکٹرس اور بائیو میڈیکل ریسرچرس (محققین) سے بات کرنے ان کے خیالات جاننے کے لئے ان کی جانب دوڑ رہے تھے۔ ایسا لگتا رہا تھا جیسی صحت عامہ اور وائرالوجی کی ایک نئی دنیا دریافت ہوئی ہو۔
افسوس صد افسوس۔ میں اس سے زیادہ غلط نہیں ہوسکتا تھا صرف چند دنوں بعد ہی تبلیغی جماعت کی کہانی منظر عام پر آئی اور پھر کیا تھا ٹیلی ویژن چیانلوں پر واقف چہرے اور پہلے کی زہر افشانی لوٹ آئی۔ بعض مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے مباحث شروع ہوگئے۔ ہر چیانل پر کورونا جہاد، تبلغستان، تبلیغ۔ پاک سازش کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ہی جملوں کو ہیش ٹیگ کیا گیا تھا۔ سنسنی خیز سرخیاں اور ہیش ٹیگ بھی واپس ہوچکے تھے یہاں تک کورونا وائرس کے خطرناک دور میں بھی اسلاموفوبیا زندہ اور بہتر حالت میں ہے۔
پچھلے چند برسوں سے ’’قوم پرست‘‘ میڈیا پر جو اسٹوری لائن چھائی رہی وہ صرف اور صرف ہندوستانی مسلمانوں کو پرتشدد، ناقابل بھروسہ اور قوم دشمن قرار دے کر الگ تھلگ کرنے سے متعلق تھی۔ میڈیا نے ان برسوں میں یہی کام تو کیا ہے۔ کشمیر میں دہشت گردی سے لیکر خود ساختہ مولاناوں کے فتوؤں اور ہر ناقابل حمایت اقدام یا حرکت کو ساری کمیونٹی (مسلمانوں) کو مورد الزام ٹھہرانے کے لئے استعمال کیا گیا۔تبلیغی جماعت کی کہانی کے لئے زبردست اور موزوں اسکرپٹ تیار کی گئی ایک ایسی اسکرپٹ جس میں ایک مولانا روپوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کرتا پاجامہ میں ملبوس باریش مرد بڑی تیزی سے ادھر اُدھر گھوم رہے ہیں۔ ایک بیرونی تعلقات سے قائم کردہ پیان۔ انڈیا نٹ ورک کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس مثبت ٹسٹوں کی ایک غیر متناسب تعداد کو خصوصی جگہ دی گئی۔ ایک مخصوص کمیونٹی کو بدنام اور الگ تھلگ کرنے کے لئے تیار کی گئی اس اسکرپٹ میں ایک مذہبی گرو کی شہری غیر ذمہ داری کو ایک ایسے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام انتہا پسندوں قدامت پسندوں کا مذہب ہے اور قانون کے دائرے سے باہر ہے۔
ایسے میں دہلی پولیس ممبئی کے اپنے ہم منصبوں کی طرح فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوگئی۔ اور اس نے سب سے پہلے اس قسم کے اجتماع کو نہ روکتے ہوئے مجرمانہ تساہل کا مظاہرہ کیا۔ دہلی پولیس کی اس مجرمانہ غفلت و تساہل کو باآسانی فراموش کردیا گیا۔ پھر کیا تھا پرائم ٹائم دشمنی کا پتہ چل گیا۔ مسلمانوں کی کورونا وائرس پھیلانے والے کی حیثیت سے نشاندہی کی جانے لگی انہیں الگ تھلگ کردیا گیا، ایسے جیسے کہ سارے 20 کروڑ لوگوں کو چند ایک کی بیوقوفی کی قیمت ادا کرنی ضروری ہے۔

جوائے جیت پال نے اس سلسلہ میں بہت ہی گہری تحقیق کی وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے رجحانات کا پتہ چلانے میں قومی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی تحقیق میں دکھایا گیا کہ تبلیغی جماعت کا واقعہ منظر عام پر آیا۔ کس طرح غلط معلومات پر مبنی مہمات کو مسلمانوں کے خلاف موڑ دیاگیا۔ جہاں ابتداء میں غلط معلومات امکانی صحتیابی اور پھر ضروری خدمات سے متعلق خوف تک محدود رکھا گیا۔ ساری توجہ مذکورہ نکات پر مرکوز کی گئی اور پھر مارچ کے اواخر میں اس رجحان میں تبدیلی لائی گئی۔ ایسے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جانے لگے جس میں کورونا وائرس کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جانے لگا۔حکومت نے کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سماجی دوری کے جو اصول و قواعد متعارف کروائے اس معاملہ میں بھی ایک فرضی اور جھوٹے ویڈیوز اور واٹس اپ پیامات کو گشت کروایا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ مسلم گروپس سماجی دوری کے اصول کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ دوسری طرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے اس قسم کے واقعات کی تردید کے لئے تھوڑی بہت کوشش کی لیکن اس طرح کے واقعات جھوٹ دروغ گوئی فرضی خبروں ویڈیوز اور پیامات سے ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف گہرے تعصب و امتیاز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ایسی آگ ہے جو شاید کافی برسوں سے پک رہی تھی۔دوسری جانب حکومت کے اہلکاروں نے کورونا وائرس سے متاثر لوگوں کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بھی بناء کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہہ رہے تھے کہ متاثرین میں اتنی تعداد تبلیغی جماعت والوں کی ہے حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے جو رہنمایانہ خطوط جاری کئے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ متاثرین کے مذہب کو ظاہر نہ کیا جائے اور کورونا وائرس کو کسی مذہب سے جوڑنے سے گریز کیا جائے۔
بالآخر اپریل کے تیسرے ہفتہ میں وزیر اعظم نریندر مودی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کورونا وائرس (کووڈ ۔ 19) حملہ کرنے سے قبل کسی مذہب ذات پات کو نہیں دیکھتا ، لنکڈان پر گفتگو میں بھی انہوں نے اسی طرح کے خیالات ظاہر کئے۔وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان اس لئے دیا گیا یا مداخلت اس لئے کی گئی کیونکہ اس سے ایک دن قبل تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے ہندوستان میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بے تکان شیطانی مہم کی مذمت کرتے ہوئے کورونا وائرس کے پھیلاو کو مسلمانوں سے جوڑنے کے خلاف انتباہ دیا تھا۔

اب تک وزیر اعظم نے قوم سے کئی مرتبہ خطاب کیا لیکن اپنے کسی بھی خطاب میں انہوں نے ملک میں کورونا کے بہانے مسلمانوں کے خلاف چلائی جارہی۔ معاندانہ مہم کا حوالہ دینا بھی پسند نہیں کیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور رتبہ کے ساتھ ساتھ تقریری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کورونا وائرس وباء، سے کافی پہلے ہی افواہیں پھیلانے والوں اور مذہبی امتیاز کے خلاف اپنی زبان نہیں کھول سکتے تھے؟افسوس کہ کورونا وائرس سے مسلمانوں کو جس مقصد سے جوڑنے کی مہم چلائی گئی اس سے جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوا، اس بات کی رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں کہ اترپردیش میں مسلم سبزی فروشوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے یا احمد آباد کے اسپتالوں میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وارڈس قائم کئے جارہے ہیں (اگرچہ اس رپورٹ کی حکومت گجرات نے تردید کی ہے) دوسری طرف اندور کے مسلم محلہ جات میں پولیس اور ڈاکٹروں پر ہجوم کے خطرناک حملوں کی تصاویر بھی پھیلائی جارہی ہیں۔

جب ایک شیطانی پروپگنڈہ میشن غربت جہالت اور مذہبی بنیاد پرستی کی مسابقت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ مابعد کورونا دنیا خوف، شکوک و شبہات اور نفرت کے زہریلے ماحول کی شکل میں برآمد ہوتا ہے جس سے صرف سماجی دشمنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کی یہ کہانی جھوٹی و فرضی خبروں اور معلومات کے چکر سے نکلنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ ایسا موقع جو خدانے دیا ہے۔ فرضی و جھوٹی خبروں اور جھوٹی معلومات نے ممبئی میڈیا صنعت کو اپنی لپیٹ لے رکھا ہے۔ ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وائرس کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہوتا یہ ہلاکت اور بیماریوں کا ہتھیار ہوتا ہے جو مالابار ہلز اور دھراوی، لپٹنس دہلی اور نظام الدین دونوں کو غیر امتیازی پالیسی کے ساتھ نشانہ بناتا ہے۔ کورونا وائرس ایک بہت بڑی پہلی ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا یہ نامعلوم ہے اور اس کے پھیلاؤ کو سمجھنے کے لئے اصل معلومات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ لوگوں کو تقسیم کرنے اور ان میں تفریق کرنے والے ایجنڈوں پر توجہ دینا ہے۔ ڈاکٹرس اور سائنسداں دراصل شفاء اور تشخیص کے مرد و خواتین ہیں وہ سیاستداں نہیں جو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر اپنی بقاء کو یقینی بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی کہانی فرقہ وارانہ سیاست کی بے آہنگی کے بغیر سنائی جائے لیکن خبروں کی روح کو ازسر نو تشکیل دے عوامی خدمت کے طور پر یہ کہانی سنائی جائے جن میں خبر کی سچائی کا جذبہ شامل ہے۔

2010 اور 2019 کے درمیان کے دور یا مدت کو ہندوستانی ٹیلی ویژن میڈیا کی محرومی کا دہا کہا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی مدت جہاں شور نے خبروں کی جگہ لی، معتبری اور ساکھ پر افراتفری حاوی رہی اب ناظرین واپس ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاون کے پہلے ہفتے میں مناظرین کی تعداد میں 250 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔