میں اب چھپ چھپ کر زندگی نہیں گزارتا : سلمان رشدی

,

   

l 9/11 کے بعد میں نے فرضی ناموں کے ساتھ رہنا بند کردیا
l ایران نے بھی موت کا فتویٰ واپس لے لیا تھا
l پیرس میں اے ایف پی کو دیئے گئے انٹرویو کے اقتباسات

پیرس ۔ 11 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) سلمان رشدی جنہیں 80ء اور 90ء کے دہے میں ’’شیطانی آیات‘‘ جیسی متنازعہ ناول لکھنے پر موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں اور اس کے بعد سے اب تک مسلسل موت کے سایہ میں زندگی گزارنے والے مصنف نے اب شاید بیزار ہوکر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ چھپ چھپ کر زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے پیرس آمد کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ یاد رہیکہ ایران کے آیت اللہ روح اللہ خمینی نے رشدی کی موت کا فتویٰ جاری کیا تھا اور 14 فبروری 1989ء میں جاری کئے گئے فتوے کے بعد ان کی طرززندگی بالکل بدل گئی تھی۔ ایران نے اس دن سے لیکر آج تک ہر سال فتویٰ کی تجدید کا سلسلہ جاری رکھا۔ 13 سال تک رشدی نے اپنا نام بدل بدل کر زندگی گزاری اور اس دوران انہیں پولیس کا مکمل تحفظ حاصل رہا۔ ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سلمان رشدی کو بہت بڑا ناول نگار سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں مقاصد میں ہمیشہ تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی ناول کا متنازعہ معاملہ ایسا ہی ایک پرانا اور فرسودہ مقصد بن چکا ہے۔ آج دنیا میں ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو ہمیں کہیں زیادہ خوفزدہ کرسکتے ہیں۔ آج ہر طرف جنگ و جدال کا ماحول ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ لوگ دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 9/11 کے بعد فرضی نام سے رہنا بند کردیا کیونکہ ایران نے بالآخر یہ اشارہ دیا تھا کہ میرے خلاف اب موت کا فتویٰ واپس لیا جاچکا ہے۔ میں نے سکون کی سانس لی۔ دنیا میں آدمی چاہے کوئی بھی ہو غریب ہو، امیرہو، مشہور ہو، گمنام ہو، مزدور ہو، مصنف ہو، موت سے سب کو ہی ڈر لگتا ہے۔ جنت میں سب جانا چاہتے ہیں لیکن کسی کو بھی کوئی جلدی نہیں۔ اسی طرح میں بھی ایک عام انسان ہوں جسے شہرت تو ملی تھی لیکن وہ منفی نوعیت کی تھی۔ آج دنیا میں جاری جنگ و جدال کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پیرس میں بھی جس وقت سلمان رشدی اے ایف پی کے دفتر میں انٹرویو کیلئے پہنچے تھے، اس وقت بھی سادہ لباس میں پولیس اہلکار آس پاس ہی موجود تھے جبکہ عمارت کے احاطہ میں بھی کئی سادہ لباس والے پولیس اہلکار باقاعدہ اس طرح تیار اور پوزیشن لیکر کھڑے تھے جیسے پلک جھپکتے ہی کوئی دہشت گردانہ حملہ ہونے والا ہے۔ ’’شیطانی آیات‘‘ رشدی کی پانچویں ناول تھی۔ رشدی نے نیویارک میں تقریباً 20 سال گزارے ۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں ایسے کئی مقاصد اور موضوعات ہیں جن پر بحث کی جاسکتی ہے۔ متنازعہ ناولوں کا دور گزر گیا۔ جس وقت ان کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا اس وقت وہ 41 سال کے تھے لیکن اب وہ 71 سال کے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہیکہ شاید اب حالات پُرسکون ہوگئے ہیں۔