میں اِس لئے زندہ ہوں کہ میں بول رہا ہوں

,

   

مودی کا بجٹ … کرسی بچاؤ بجٹ
حکومت + سرکاری ملازمین = آر ایس ایس

رشیدالدین
آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ مرکز میں برسر اقتدار این ڈی اے حکومت نے عوام کے لئے نہیں بلکہ خود اپنی بقاء کے لئے بجٹ پیش کیا ہے۔ کرسی بچاؤ بجٹ کے ذریعہ نریندر مودی نے مزید 5 برسوں کے لئے وزارت عظمیٰ پر برقراری کی چال چلی ہے۔ کوئی بھی حکومت چاہے مرکز ہو کہ ریاست اُس کا بجٹ عوام کے لئے ہوتا ہے، بجٹ کے ذریعہ عوام کو مراعات اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ بجٹ کی پیشکشی کے موقع پر سماج کے ہر طبقہ کو اُمید کے ساتھ خوف لاحق ہوتا ہے۔ نریندر مودی کی 2 میعادوں کا ایک بھی بجٹ ایسا نہیں تھا جسے عوامی بجٹ کہا جاسکے۔ ہر سال وعدوں اور اعلانات کے سوا عوام کو کچھ نہیں ملا۔ اچھے دن کے انتظار میں 10 برس گزر گئے لیکن مسائل میں کمی کے بجائے ہر دن اضافہ ہی ہوا۔ غربت، بیروزگاری اور بیماری جیسے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں غربت کی شرح بڑھنے لگی۔ دولتمند اور امیر افراد کی دولت میں اضافہ ہوا جبکہ متوسط طبقات غریبوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ مودی حکومت کو دو میعادوں کے دوران اکثریت حاصل تھی لہذا حلیف اور اپوزیشن پارٹیوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی اکثریت سے محروم ہوگئی اور بی جے پی حکومت دراصل این ڈی اے حکومت میں تبدیل ہوگئی۔ مخلوط حکومتوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں اور آزادانہ فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔ گزشتہ 10 برسوں میں جس طرح من مانی کی گئی اُمید کی جارہی تھی کہ تیسری میعاد میں ہندوتوا طاقتوں پر کنٹرول ہوگا۔ بی جے پی نے چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار کی مضبوط بیساکھیوں کا سہارا لے کر تیسری مرتبہ حکومت قائم کی۔ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار کا بیاک گراؤنڈ کبھی بھی مستقل نہیں رہا۔ دوستوں اور حلیفوں کو بدلنا اُن کی عادت رہی جسے سیاسی اصطلاح میں چال بازی اور حکمت عملی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی چندرابابو نائیڈو ہیں جنھوں نے مودی کو گجرات کا قاتل قرار دیا تھا اور بی جے پی سے دوبارہ اتحاد نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن جگن موہن ریڈی کو شکست دینے کے لئے مودی سے ہاتھ ملانے تیار ہوگئے۔ مودی اور امیت شاہ نے بابو کو کیا کچھ نہیں کہا تھا اور خود چندرابابو نائیڈو نے مودی اور بی جے پی کو کئی القاب سے نوازا تھا۔ اگر اِن تینوں کو پرانے بیانات سنائے جائیں تو شاید کچھ شرم محسوس ہوگی لیکن آج کل کی سیاست میں شرمندگی اور احساس کا دور دور تک تعلق نہیں۔ این ڈی اے حکومت کی تشکیل کے لئے جس وقت چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار نے تائید کا اعلان کیا تو مبصرین نے کہا تھا کہ ’’ایک نہ شد دو شد‘‘ کا تجربہ ہے اور یہ دونوں کسی بھی وقت موقف بدل سکتے ہیں۔ دوستی اور علیحدگی کے لئے اِن دونوں کے پاس کوئی ٹھوس وجوہات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مودی حکومت کو سہارا دے کر دونوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کرلی۔ بی جے پی کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اقتدار ہاتھ سے پھسل نہ جائے لہذا پہلے بجٹ میں چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار پر انعامات کی بارش کی گئی۔ آندھراپردیش اور بہار کے لئے کئی پراجکٹس منظور کئے گئے۔ نریندر مودی کو حکومت اور کرسی بچانا تھا جبکہ بابو اور نتیش کمار کی نظر اپنے اپنے نشانوں پر تھی۔ یہ دونوں قائدین سیماب صفت کے مالک ہیں اور کسی کے ساتھ زیادہ دن ٹک کر نہیں رہ سکتے۔ حکومت میں بادشاہ گر ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاست کے دونوں چانکیہ نے بجٹ کو لوٹ لیا۔ مرکزی بجٹ تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کا ہوتا ہے۔ سارے ملک کے بجٹ کو صرف دو ریاستوں پر انعامات کی بارش کے ذریعہ ریاستی بجٹ کی شکل دے دی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں پر بھی زیادہ مہربانی نہیں کی گئی۔ مودی حکومت کو پہلے بجٹ میں حلیفوں کے دباؤ کا تلخ تجربہ ہوا۔ مودی نے بھلے ہی بابو اور نتیش کمار پر نذرانوں کی بارش کردی ہے لیکن اِس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں کہ 5 سال تک حکومت کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ مرکزی بجٹ سے اگر کسی ریاست کے ساتھ حقیقی معنوں میں ناانصافی ہوئی ہے تو وہ تلنگانہ ہے۔ 2014 ء میں متحدہ آندھراپردیش کی تقسیم کے وقت دونوں ریاستوں سے کئی وعدے کرتے ہوئے قانون منظور کیا گیا۔ آندھراپردیش تنظیم جدید قانون کا حوالہ دے کر مودی حکومت نے آندھراپردیش پر بجٹ کی بارش کی جبکہ اسی قانون کے تحت موجود تلنگانہ سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ حد تک یہ ہوگئی کہ بجٹ تقریر میں لفظ تلنگانہ کا استعمال نہیں ہوا۔ دراصل تلگودیشم اور جنتادل یونائیٹیڈ کو تائید کا صلہ انعام و اکرام کی شکل میں دیا گیا۔ تلنگانہ سے بی جے پی کے 8 ارکان پارلیمنٹ اور 8 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے لیکن بی جے پی کو ووٹ دینے والے رائے دہندوں کی پرواہ تک نہیں کی گئی۔
مرکزی بجٹ میں ہمیشہ کی طرح اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے مسلمانوں کو تعلیم سے دور کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس حکومت کی باگ ڈور آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہو وہ مسلمانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچ نہیں سکتی۔ مودی حکومت میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور اِس ناانصافی پر مودی اور آر ایس ایس کو کوئی شرمندگی نہیں۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ مسلمانوں کے ماسوا دیگر طبقات کے لئے ہوچکا ہے۔ مودی حکومت پر آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے کنٹرول کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر گزشتہ 58 سال سے موجود پابندی کو ختم کردیا گیا۔ سرکاری ملازمین اور عہدیداروں کو خدمات کے معاملہ میں غیر جانبدار رکھنے کے لئے سردار پٹیل نے یہ پابندی عائد کی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دور حکومت میں اِس پابندی کو ختم نہیں کیا تھا۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والی آر ایس ایس کے اشارہ پر یہ پابندی ختم کردی گئی جس کے نتیجہ میں مرکزی حکومت کے تمام اعلیٰ عہدیدار اور نچلی سطح کے ملازمین کے ہاتھ میں عملاً آر ایس ایس کی لاٹھی دے دی گئی ہے۔ عہدیدار اور ملازمین اب مکمل آزادی کے ساتھ آر ایس ایس پریڈ اور دیگر سرگرمیوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سنگھ پریوار نے سیول سرویسس سے وابستہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں کی ذہن سازی کے کام کا پہلے ہی آغاز کردیا ہے جس کے نتیجہ میں ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بیشتر ججس اور سیول سرویس عہدیدار بی جے پی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور عہدیداروں کو آر ایس ایس میں شمولیت کی اجازت کے ذریعہ ہندوتوا کے نظریات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت اور سرکاری ملازمین اب آر ایس ایس کے تابع رہیں گے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی پالیسی پر عمل آوری کھلے عام سرکاری سطح پر کی جاسکے گی۔ اِس فیصلے کے ذریعہ مودی حکومت نے نفرت کے زہر کو نظم و نسق تک پہنچادیا ہے۔ ملک کی سیکولر پارٹیوں اور جہدکاروں کو اِس فیصلے کا سختی سے نوٹ لینا چاہئے۔ اگر اِس فیصلے کے سنگین اثرات کا اندازہ کئے بغیر خاموشی اختیار کرلی گئی تو بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں ریاستی حکومت کے ملازمین کو بھی آر ایس ایس میں شمولیت کی اجازت دے دی جائے گی۔ مودی حکومت نے این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کا سہارا لے کر ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی منصوبہ بندی کی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کی بی جے پی کی حلیف پارٹیوں نے مخالفت کی۔ بی جے پی نے نئی چال چلی اور نظم و نسق کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کے لئے عہدیداروں اور ملازمین کو آر ایس ایس میں شمولیت کی ترغیب دی ہے۔ دوسری طرف اترپردیش اور اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومتوں نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے لئے کاوڑ یاترا کا سہارا لیا۔ دونوں ریاستوں سے گزرنے والی اِس یاترا کے راستے پر موجود ہر چھوٹی بڑی دوکان کے مالک کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنا نام اور مذہب نمایاں طور پر درج کرے۔ کسی بھی مذہبی یاترا کے موقع پر مسلم تاجرین کو نام اور مذہب کی تفصیلات درج کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش میں بدترین ہار کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی نئی چال چلی ہے تاکہ زعفرانی تنظیموں کو مطمئن کیا جاسکے۔ قابل مبارکباد ہے سپریم کورٹ جس نے اِس فیصلے پر روک لگاتے ہوئے ہندوستان کے دستور اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا تحفظ کیا ہے۔ ملک میں عاملہ اور مقننہ پر جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا مکمل کنٹرول ہوچکا ہے لیکن عدلیہ ابھی بھی غیر جانبدار اور آزاد ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مقامی عدالتوں کی سطح پر بعض ججس بی جے پی حکومتوں کے حق میں فیصلے سنارہے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے ابھی بھی اپنی آزادی کو قائم رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے فرقہ پرست طاقتوں کے لئے وبال جان بن چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے الیکشن کمشنرس کے تقرر کے سلسلہ میں قائم کی گئی کمیٹی سے چیف جسٹس آف انڈیا کا نام حذف کرتے ہوئے ایک مرکزی وزیر کو شامل کیا ہے۔ مودی کو اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ کی نظر حکومت کے فیصلوں اور کارکردگی پر ہے۔ شرط یہ ہے کہ کوئی درخواست گذار انصاف کیلئے رجوع ہو۔ سورت سے تعلق رکھنے والے وسیم ملک نے کیا خوب کہا ہے ؎
میں اِس لئے زندہ ہوں کہ میں بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی کہانی نہیں لکھتی