مودی کے روڈ شو … شہیدوں کیلئے وقت نہیں
ارکان پارلیمنٹ کا بیرونی دورہ … کوئی اہم کامیابی نہیں ملی
رشیدالدین
’’کامیابی بتانا اور کامیابی بھنانا‘‘ بظاہر دونوں میں کامیابی قدرے مشترک ہے لیکن بنانا اور بھنانا دو مختلف خصوصیات ہیں۔ کامیابی کا بطور خوشی اظہار کرنا کامیابی بتانے کے زمرہ میں آتا ہے جبکہ کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کو بھنانا کہتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اِن دنوں ملک بھر میں روڈ شو اور ریالیوں کے ذریعہ آپریشن سندور کو بھنانے میں لگے ہیں تاکہ بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہو اور دُنیا بھر میں اُن کی واہ واہی ہو۔ آپریشن سندور ہندوستان کی بہادر افواج کے حوصلے اور ہمت کا ثبوت ہے جس میں دشمن کے علاقہ میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ نریندر مودی فوج کے سربراہ یا فیلڈ مارشل نہیں جوکہ کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیں۔ صدرجمہوریہ دراصل تینوں افواج کی سپریم کمانڈر ہوتی ہیں، اگر فوج کی کامیابی کا سہرا اُن کے سر جاتا ہے تو اُس میں کوئی قباحت نہیں۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ بھی افواج کے نگرانکار کی حیثیت سے کامیابی کا دعویٰ کرسکتے ہیں لیکن یہاں تو سارے ملک میں فوجی لباس میں نریندر مودی کی تصاویر کچھ اِس طرح وائرل کی گئیں جیسا کہ خود اُنھوں نے رافیل جنگی جہاز اُڑاکر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہو۔ نریندر مودی دراصل اپنی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے اور برتری کے موقف کو نبھانے کی کوشش میں سندور کی کامیابی کو بھنانے میں مصروف ہیں۔ جب کبھی ملک پر بُرا وقت آئے تو ملک کا سربراہ راہ فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ حالات سے مقابلہ کے لئے سینا سپر ہوجاتا ہے۔ کرکٹ سے واقف افراد جانتے ہیں کہ جب کبھی ٹیم بُرے حال میں ہو تو ٹیم کا کپتان میدان چھوڑ کر شاپنگ میں مصروف نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے خود کھیلنے کے لئے میدان میں اُترتا ہے اور یہی جذبہ ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ملک کی این ڈی اے حکومت کے کپتان نریندر مودی پہلگام دہشت گرد حملہ کے بعد سے میدان چھوڑ کر روڈ شو اور ریالیوں میں مصروف ہیں۔ پہلگام میں دہشت گرد حملہ کے بعد جب سارے ملک میں غم اور برہمی کا ماحول تھا، نریندر مودی الیکشن ریالی میں حصہ لینے بہار پہونچ گئے۔ مودی ایکشن کے ذریعہ پاکستان کو جواب دینے کے بجائے روڈ شو اور ریالیوں میں ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ذریعہ پاکستان پر الفاظ کے راکٹ اور بم برسارہے ہیں۔ مودی 56 اِنچ کا سینہ رکھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہمت اور بہادری صرف الفاظ تک محدود ہے اور وہ اِسی میں خوش بھی ہیں۔ بہار، کیرالا، آندھراپردیش، راجستھان اور گجرات میں روڈ شو اور ریالیوں کے بعد دوسرے مرحلہ میں سکم، مغربی بنگال، بہار اور اترپردیش کا دورہ کیا۔ آپریشن سندور کے نام پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی یہ کوشش پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ سابق میں بھی فوجی کارروائی کو سیاسی مقاصد کو استعمال کیا جاچکا ہے۔ مبصرین کا تو کہنا ہے کہ ہر الیکشن سے قبل کوئی نہ کوئی دہشت گرد کارروائی ضرور ہوتی ہے۔ ریاستوں میں بھلے الیکشن ہوں یا نہ ہوں نریندر مودی نے سارے ملک کے دورے کی ٹھان لی ہے۔ آپریشن سندور کا کریڈٹ لینے والے نریندر مودی نے کاش سندور کی لاج رکھی ہوتی۔ 7 جنم تک ساتھ نبھانے کی قسم کھاکر مودی نے جن کے ساتھ اگنی کے پھیرے لئے تھے پتہ نہیں وہ کہاں بھٹک رہی ہیں۔ گھر والی کے سندور کی عظمت کو برقرار رکھنے سے قاصر مودی پہلگام کے مہلوکین کی بیواؤں کے سندور اُجڑنے کا بدلہ لینے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ سندور کی اہمیت تو وہی سمجھے گا جس نے سندور کا احترام کیا ہو۔ آپریشن سندور کی کامیابی کو بھنانے میں مودی اِس قدر آگے نکل گئے کہ فوجی خاندانوں کے ذریعہ اپنے اوپر پھولوں کی بارش کرواکر خوش ہورہے ہیں، جیسے کہ وہ خود سرحد پر تعینات تھے۔ گجرات میں روڈ شو کے دوران کرنل صوفیہ قریشی کے والد، بھائی اور بہن کو حکام کے ذریعہ طلب کرتے ہوئے اُن کے ہاتھوں مودی پر پھول برسائے گئے۔ فوجی کے خاندان کو پھول برسانے کے لئے روڈ شو میں مدعو کرنے کی سوچ پر ماتم نہیں تو کیا کریں گے۔ پھول کس پر برسانا ہے اور کس پر برسائے جارہے ہیں؟ نریندر مودی نے آخر کونسا کارنامہ انجام دیا کہ اُن پر فوجی خاندان پھول برسائے؟ امریکی صدر ٹرمپ کے دباؤ میں اچانک سیز فائر کے اعلان پر پھول برسائے جائیں؟ پہلگام کے مہلوکین کے پسماندگان سے ملاقات نہ کرنے پر پھولوں کی بارش ہو یا پھر پونچھ میں پاکستانی حملہ میں ہلاک 16 شہریوں کے پسماندگان کی خیریت نہ لینے پر پھول برسائے جائیں؟ لوگوں کو جمع کرکے اُن کو پھول دے کر اپنے آپ پر نچھاور کرانے سے دِل کو تسکین تو ضرور ہوگی لیکن حقیقت میں انسان کا عمل اور کارنامے ایسے ہوں کہ لوگ پھول برسانے پر مجبور ہوجائیں۔ یہی حقیقی معنوں میں کامیابی ہوگی۔ فوجی عہدیدار کے گھر والوں کو روڈ شو میں طلب کرنا دراصل فوجی خاندان کی توہین ہے۔ روڈ شو کے لئے نریندر مودی جہاں جہاں جائیں گے کیا وہاں کے فوجی جوانوں کے گھر والوں کو پھول برسانے کے لئے بلایا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی خود صوفیہ قریشی کے مکان جاتے اور گھر والوں پر پھول برساتے۔ آپریشن سندور میں حصہ لینے والے فوجی عہدیداروں اور جوانوں کے گھر جاکر مودی بہادری کی ستائش کریں۔ آپریشن میں شہید ہوئے اُن کے خاندانوں کو گھر پہونچ کر پرسہ دیا جائے، یہی حقیقی معنوں میں فوج کو خراج ہوگا۔ لیکن یہاں تو صورتحال برعکس ہے۔ مودی نے پہلگام کا دورہ نہیں کیا اور مہلوکین کے خاندانوں سے ملاقات نہیں کی۔ پاکستانی حملہ میں تباہ پونچھ کا دورہ نہیں کیا اور نہ مرنے والے 16 شہریوں کے خاندانوں کو پرسہ دیا لیکن شہیدوں کے نام پر سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ روڈ شو اور ریالیوں میں فلمی ڈائیلاگس کی طرز پر مکالمے ادا کئے جارہے ہیں۔ مودی کو شاید کوئی ایسا اسکرپٹ رائٹر مل گیا ہے جو فلموں کے لئے کام کرچکا ہے۔ کبھی اُن کی رگوں میں گرم خون تو گرم سندور دوڑنے لگتا ہے۔ حالیہ ریالی میں وزیراعظم نے پاکستانی عوام کو دھمکی کچھ اِس طرح دی کہ ’’روٹی کھاؤ ورنہ میری گولی تو ہے ہی‘‘۔ کسی بھی ملک کے عوام کے لئے وزیراعظم کی زبان سے اِس طرح کی دھمکی زیب نہیں دیتی۔ کیا عوام دہشت گرد ہیں اور اُن کا دہشت گرد سرگرمیوں سے کیا تعلق؟ کسی بھی ملک کے عوام دہشت گرد نہیں ہوتے جس کے لئے اُنھیں گولی کی دھمکی دی جاسکے۔ دراصل فلم شعلے میں گبر سنگھ نے کہا تھا کہ ’’تم نے نمک کھایا ہے اب گولی کھاؤ‘‘۔ کیا وزیراعظم کو ایک ویلن کے ڈائیلاگس سے متاثر ہونا چاہئے؟ وزیراعظم کو نائک بننا ہو تو کم از کم کھل نائک کے ڈائیلاگ کا سہارا نہ لیں۔ ڈائیلاگ ڈیلیوری سے ’’مودی مودی‘‘ کے نعرے تو مل جائیں گے لیکن پہلگام مہلوکین کا بدلہ پورا نہیں ہوگا۔ پہلگام حملہ کے ذمہ دار دہشت گرد کہاں ہیں؟ آخر اُن کا پتہ چلانے میں کامیابی کیوں نہیں ملی؟ کیا وہ ابھی بھی ہندوستان میں ہیں یا سرحد پار واپس ہوگئے۔ اگر اُنھوں نے سرحد عبور کرلی تو سرحدوں پر چوکسی کہاں تھی۔ الغرض ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب مودی کو دینا ہوگا۔ آپریشن سندور کے بعد اِس قدر روڈ شو اور ریالیوں کی کیا ضرورت ہے؟ کروڑہا روپئے خرچ کرتے ہوئے بی جے پی کی مہم چلائی جارہی ہے۔ وزیراعظم کے پاس کل جماعتی اجلاس کے لئے وقت نہیں۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنے وقت نہیں۔ پہلگام اور پونچھ کے متاثرہ خاندانوں کو پرسہ دینے وقت نہیں لیکن روڈ شو اور ریالیوں کے لئے کافی وقت ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا حکمت عملی کہ گزشتہ 11 برسوں میں پریس کانفرنس کے لئے نریندر مودی کے پاس ایک گھنٹہ دستیاب نہیں رہا۔ دراصل وہ سوالات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔
دنیا کے سامنے پاکستان کی پول کھولنے کے لئے 57 ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل 7 وفود کو 33 ممالک کے دورہ پر روانہ کیا گیا لیکن کسی بھی ملک سے مثبت نتائج کی اطلاعات نہیں ہیں۔ امریکہ، فرانس، روس، بحرین، کویت اور سعودی عرب کا ارکان پارلیمنٹ نے ابھی تک دورہ مکمل کرلیا ہے لیکن کسی بھی ملک نے ابھی تک ارکان پارلیمنٹ کی موجودگی میں سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستان کے موقف کی تائید نہیں کی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ دنیا بھر میں ہندوستان کا موقف پیش کرنے اور پاکستان کا پول کھولنے کے لئے نریندر مودی سے زیادہ موزوں کوئی شخصیت نہیں ہوسکتی جو 11 سال میں 151 بیرونی دوروں کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ بیرونی دوروں کے ذریعہ سربراہان مملکت کو گلے لگاکر دوستی اور محبت کے اظہار کے ماہر نریندر مودی نے ارکان پارلیمنٹ کو آگے کردیا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ موجودہ حالات میں دنیا کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی میچ ریفری کی طرح ڈونالڈ ٹرمپ کے اِس اعلان نے ہندوستان کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کے وفود کے دورہ کے موقع پر جو تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں اُن میں وہاں کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ یا وزیر دفاع کے ساتھ تصاویر نہیں اور نہ ہی کسی اہم سرکاری عہدیدار سے ملاقات ہوئی بلکہ ایرپورٹ پر بیاگیج، ہوٹلوں میں داخلہ، ہندوستانیوں سے ملاقات اور لنچ اور ڈنر کی تصاویر اور ویڈیوز کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دراصل وزارت خارجہ نے اپوزیشن اور برسر اقتدار ارکان کے لئے آپریشن سندور کے نام پر ایک تفریح کا اہتمام کیا تھا۔ شاید بیرونی ممالک کی حکومتوں نے ارکان پارلیمنٹ کے وفود کو اہمیت نہیں دی۔ شاید مودی یا جئے شنکر دورہ کرتے تو بات کچھ اور ہوتی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے وفود کے ذریعہ مودی ایجنڈہ کا دنیا میں پرچار کیا جارہا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ وزیراعظم نریندر مودی کی ستائش کررہے ہیں جو بی جے پی کے مقاصد کی تکمیل ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے وفود نے سرکاری نیوز چیانلس کو انٹرویو دیا جبکہ مقامی اخبارات اور نیوز چیانلس میں دورہ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ 57 ارکان پارلیمنٹ کا بزنس کلاس میں سفر اور دیگر سہولتوں پر کروڑہا روپئے کا جو خرچ آیا ہے ظاہر ہے وہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے۔ کویت میں ہندوستانی وفد کے دورہ کا اُلٹا اثر ہوا۔ ارکان پارلیمنٹ کے دورے کے دوسرے ہی دن کویت نے 19 سال سے جاری پاکستان پر ویزا کی پابندیوںکو ختم کردیا۔ اِس اعتبار سے کویت کو ہندوستانی وفد کا دورہ پاکستان کے لئے زحمت نہیں بلکہ رحمت ثابت ہوا ہے۔ نریندر مودی ملک میں آپریشن سندور کو بھنارہے تھے تو دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے باہر سے مودی کے حق میں بالواسطہ مہم چلائی۔پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
میں دنیا کو منانے میں لگا ہوں
مرا گھر مجھ سے روٹھا جارہا ہے